کووِڈ-19 کے تباہ کردہ ایک کشمیری خاندان کی کہانی،ماتم کا موقعہ ملا نہ تسلی کسی نے دی

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    کووِڈ -19کی تباہ کاریاں کسی سے چھُپی ہیں اور نہ کسی خاص خطہ تک محدود تاہم سرینگر شہر کے پائین علاقہ کے ایک خاندان کے ساتھ جو کچھ اس مہلک بیماری نے کیا وہ رُلا دینے والا ہے۔
    گاسی یار حول کے اس خاندان میں ،باپ بیٹے، دو ہی مرد تھے ،دونوں کو کرونا (وائرس) کھا گیا اور اب اس خاندان میں ماں بیٹی کی شکل میں بے یارو مددگار دو خواتین رہ گئی ہیں۔ ادھیڑ عمر کے میاں بیوی اور انکے بالغ بیٹے اور بیٹی پر مشتمل کشمیری دستکاریوں کا کاروبار کرنے والا یہ خاندان بڑی حد تک خوشحال تھا یہاں تک کہ کئی عارضوں میں مبتلا میاں کی گذشتہ دنوں طبیعت بگڑی اور انہیں شہر کے سُپر اسپیشلٹی ہاسپٹل میں بھرتی کرنا پڑا۔ انکے  36 سالہ بیٹے نے بیمار والد کی بڑی خدمت کی اور وہ انکی تیمار داری کیلئے اسپتال میں رہا یہاں تک کہ خود انکی طبیعت خراب ہوگئی ،جانچ کرنے پر انہیں کووِڈ 19 کا مریض پایا گیا اور پھر انہیں ایک مخصوص اسپتال میں بھرتی کیا گیا جہاں جموں کشمیر کی سطح پر سب سے کم عمری میں کووِڈ 19کی موت مرنے والے پہلے شخص کے بطور انہوں نے دم توڑ دیا۔بتایا جاتا ہے کہ پہلے انکے والد اور پھر مذکورہ شخص بھی اسپتال میں رہتے ہوئے کووِڈ 19 کا شکار ہوگئے تھے۔ سُپر اسپیشلٹی اسپتال میں بھرتی بیمار والد کو یہ جانکاہ خبر نہیں دی گئی اور مذکورہ کو سرکاری ہدایات کے مطابق رسوم و روایات کے برعکس چُپ چاپ در گور کیا گیا۔
    ایک طرف خاندان پر یہ قیامت ٹوٹی تو دوسری جانب اس گھرانے کی دو خواتین،ماں بیٹی، کے ساتھ ساتھ مرنے والے کے رابطے میں آچکے کئی رشتہ داروں کو قرنطینہ بھیجا گیا جبکہ پڑوسیوں کو خود تنہائی کی ہدایت کرکے اپنے آپ تک محدود رہنے کیلئے کہا گیا۔ سرکاری قرنطینہ میں ماں بیٹی ابھی ان پر ٹوٹ چکی قیامت سے سنبھل بھی نہیں پا رہی تھیں کہ اسپتال میں بھرتی گھر کا واحد باقی مرد بھی کووِڈ 19 کے کیڑے کا لقمہ بن گیا اور یوں گھر کے دونوں مرد دیکھتے ہی دیکھتے یوں مر گئے کہ سوگوار ماں بیٹی کو انکا منھ دیکھنا تک نصیب نہیں ہوسکا۔ اس بد نصیب خاندان کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے ’’ہم پر جو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اسکا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، دونوں باپ بیٹے انتہائی مظلومانہ موت مرے ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ہم کچھ سمجھ ہیں نہیں پا رہے ہیں،ماتم کرنا اور ایکدوسرے کو تسلی دینا تو دور کی بات ہے‘‘۔خاندان کے ایک اور رشتہ دار نے بتایا ’’یہ سارا گھر فنا ہوگیا،ماں بیٹی زندہ لاشوں کی طرح ہیں،انہیں کماکے کون دیگا،کون سنبھالے گا اور کون تسلی دیگا،کچھ سمجھ نہیں آتا ہے‘‘۔
    اس بد نصیب خاندان کیلئے ماتم منانا بھی ممکن نہیں ہوسکا ہے کیونکہ دونوں ماں بیٹی اور انکے کئی رشتہ دار سرکاری قرنطینہ میں ہیں جبکہ دکھ سُکھ میں شریک ہوتے رہے انکے رشتہ دار ،اس خدشے کے تحت کہ کہیں انہیں بھی کرونا نہ لگ جائے، خود تنہائی میں ہیں۔ حالانکہ انہیں ملال ہے کہ دکھ کی گھڑی میں وہ اپنے پڑوسیوں کے کام نہیں آ پارہے ہیں۔ انکی ایک پڑوسن نے بتایا ’’یہ ہم سبھی کا ماتم ہے لیکن ستم دیکھئے کہ ہم دونوں ماں بیٹی کی ڈھارس بھی نہیں بندھا سکے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ کچھ تو لوگ خود وائرس کا شکار ہونے کے ڈر سے سامنے نہیں آئے اور کچھ سرکاری ہدایات کا نتیجہ تھا کہ سوگوار خاندان کے کوئی آنسو تک نہ پونچھ سکا۔انہوں نے کہا ’’دونوں باپ بیٹے کو چُپ چاپ دفنایا گیا،کوئی بڑا جنازہ نہیں کوئی ماتم داری نہیں ،ہم لوگوں کو سرکار کی جانب سے گھروں سے باہر نہ آںے کی ہدایات ہیں اور سچ یہ بھی ہے کہ لوگ خود بھی ڈرے ہوئے ہیں‘‘۔
    قدامت پسند کشمیری سماج میں لوگ دکھ سُکھ میں ایک دوسرے کا بڑا ساتھ دیتے ہیں یہاں تک کہ کسی گھر میں کسی بزرگ کی بھی فطری موت ہوجائے تو دور دور سے لوگ ہفتوں تک ملنے اور پُرسہ دینے چلے آتے رہتے ہیں اور اگر موت حادثاتی ہو تو اور بھی زیادہ ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن کووِڈ 19کے بہانے مرنے والوں کے لواحقین کے حق میں یہ ہمدردی نہیں آئی ہے۔ زیرِ تبصرہ خاندان کے ایک برگ پڑوسی کا کہنا ہے ’’اس گھر پر جو قیامت ٹوٹی ہے وہ اسے اور بھی زیادہ ہمدردی کا مستحق بناتی تھی لیکن افسوس یہ کہ وہ لوگ کہیں سرکاری تحویل میں ہیں اور ہم اپنے گھروں میں قید۔یہ سب اس گھر کیلئے ہی نہیں بلکہ ہم سب کیلئے اذیت ناک ہے،اللہ کرے کہ یہ بلا جلد ٹل جائے،ہم ان ماں بیٹی کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے اور امید ہے کہ وہ بھی حالات کو سمجھتے ہوئے ہم سے کوئی گلہ نہیں کرینگے‘‘۔
     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS