مہلوک تین نوجوانوں کے افراد خانہ لاشوں کی واپسی اور معاملے کی تحقیقات کے لئے شدید احتجاج

    0

    سری نگر: سری نگر کے مضافاتی علاقہ لاوے پورہ میں گذشتہ روز ایک جنگجو مخالف آپریشن میں مارے گئے تین نوجوانوں کے افراد خانہ اوررشتہ داروں نے پیر کے روز یہاں پریس کالونی میں شدید احتجاج کیا۔
    مہلوک نوجوانوں کے افراد خانہ اور رشتہ دار لاشوں کی واپسی اور اس جنگجو مخالف آپریشن کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کے بچے بالکل بے قصور ہیں جنہیں فرضی تصادم میں مارا گیا ہے۔
    احتجاج درج کرنے کے لئے سخت سردی اور برستی برف کے بیچ جنوبی کشمیر سے سری نگر کی پریس کالونی پہنچنے والے مہلوک نوجوانوں کے افراد خانہ اور رشتہ دار 'وی وانٹ جسٹس، انکوائنٹر کی تحقیقات کرو، لاشیں واپس کرو' جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
    احتجاج کے اکثر شرکا آہ و بکا کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: 'ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ یہ ظلم دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ہونا چاہیے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم امن چاہتے ہیں، کیا یہی وہ امن ہے'۔
    سولہ سالہ مہلوک نوجوان اطہر مشتاق کے والد مشتاق احمد نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا: 'میں مزدوری کرتا ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ اپنے بیٹے کو ایک بڑا افسر بنائوں گا۔ لیکن ظالموں نے میرے بیٹے کو بڑی بے دردی سے مارا ہے۔ میرا بیٹا 16 سال کا لڑکا تھا۔ اس نے تمہارا کیا بگاڑا تھا'۔
    ان کا مزید کہنا تھا: 'مجھے پیسے نہیں بیٹے کی لاش چاہیے۔ مجھے میرے بیٹے کی لاش دے دو۔  کیا فوجی میرے جگر کے ٹکڑے کو مجھ سے چھین کر خوش ہو گئے ہیں'۔  
    اطہر مشتاق کی خالہ نے کہا: 'اطہر ہمارا اکلوتا بیٹا تھا۔ ہم سے ہمارا گردہ نکالا گیا ہے۔ ہمیں اس کی لاش واپس چاہیے۔ ہم اس کی دوری برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے اس کے لئے قبر بھی کود کر رکھی ہے'۔
    اس موقع پر ایک سکھ سماجی کارکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمارے دو مطالبات ہیں، ایک کیس کی تحقیقات کی جائے اور دوسرا لاشیں واپس کی جائیں۔
    انہوں نے کہا: 'گھر والوں کو لاشیں نہ دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آپ ایک مردہ لاش کو دینے سے کیوں ڈر رہے ہیں۔ ہندوستان کا فوجی کوئی فرشتہ نہیں ہے۔ اس سے غلطی ہو سکتی ہے۔ شوپیاں فرضی تصادم ہمارے سامنے ایک مثال ہے'۔
    ان کا مزید کہنا تھا: 'آپ نے ہم سے ہمارے تین نوجوان چھیننے ہیں۔ اگر وہ مسلح تحریک کا حصہ تھے تو ہمیں اس کا ثبوت دیں۔ آپ عدالت، وکیل اور جج خود نہیں بن سکتے ہیں۔ اطہر ایک نابالغ لڑکا تھا۔ اس پر کوئی بڑا کیس نہیں بن سکتا تھا'۔
    بتادیں کہ 30 دسمبر کو ہونے والے لاوے پورہ تصادم میں سکیورٹی فورسز نے تین جنگجوئوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جنہیں سونہ مرگ میں سپرد خاک کیا گیا۔ تاہم مہلوکین کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ مہلوکین بے قصور ہیں جن میں سے دو طلاب علم تھے۔
    مہلوک نوجوانوں کی شناخت اعجاز احمد گنائی، اطہر مشتاق اور زبیر احمد کے بطور ہوئی تھی۔ فوج کا کہنا ہے کہ مہلوکین جنگجو تھے جو قومی شاہراہ پر ایک بڑی کارروائی انجام دینے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
    پولیس نے مہلوکین کے بارے میں جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ مہلوکین میں سے دو جنگجوؤں کے اعانت کار تھے جب کہ تیسرے نے ممکنہ طور جنگجوؤں کی صفوں کی شمولیت کی تھی۔
    جموں و کشمیر کی بیشتر علاقائی سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی،اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم) نے اس واقعے میں تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
    جہاں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے نام ایک مکتوب روانہ کیا ہے جس میں ان سے اس واقعے میں غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے وہیں نیشنل کانفرنس کا کہنا ہے کہ انہیں موصوف لیفٹیننٹ گورنر نے اس واقعے میں تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کی ہے۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS