کرناٹک: کیا کوئی پارٹی کنگ میکر بن کر ابھرے گی

0

کرناٹک کی انتخابی سیاست اس وقت شباب پر ہے۔ 10مئی کو ایک مرحلہ میں 224سیٹوںپر ایک ساتھ الیکشن ہونے والے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے بڑے لوگ اور بڑی تعداد میں ادھرادھر جارہے ہیں اورخاص طورپر کانگریس کا رخ کررہے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ شٹر کا کانگریس میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی عوام اور لیڈروں دونوںسے اپنا رابطہ کھوچکی ہے اوراس کے کئی سینئر لیڈر مختلف وجوہات کی بنا پر ادھرادھرجارہے ہیں۔ لیکن اس دوران غیرجانبدار مبصرین کے جوتبصرے سامنے آرہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ دیوگوڑا کی خاندانی پارٹی جنتادل ایس اس مرتبہ دوبارہ ایک کنگ میکر کا رول اداکرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ خیال رہے کہ پچھلی مرتبہ جنتادل ایس نے کانگریس کا ساتھ دے کر حکومت بنائی تھی اور جنتادل ایس کے صدر ایچ ڈی کماراسوامی وزیراعلیٰ بنے تھے۔ مگر بعدمیں بی جے پی نے کچھ کانگریس اورکچھ جنتادل ایس کے ممبران اسمبلی کو توڑکر اپنی حکومت بنا لی تھی۔ بی جے پی کی حکومت میں بھی عدم استحکام رہا اوراس کو اپنا وزیراعلیٰ بدلنا پڑا۔ یدورپا جو پہلے ہی کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہے تھے ان کو داغدار شبیہ اور درازی عمر کی وجہ سے اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ بعدمیں موجودہ وزیراعلیٰ بسوراج بومئی وزیراعلیٰ بنے اوران پر کرناٹک کی اب تک کی سب سے کرپٹ حکومت چلانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ پولیس اورالیکشن کمیشن نے حکمراں پارٹی کے کئی لیڈروںاوران کے اہل خانہ کے خلاف کارروائی کی ہے۔ کرناٹک جو کہ ترقی یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ عوام کی ریاست سمجھی جاتی ہے وہاں پر اہم عہدوںپرفائز سیاست دانوں پر جس طریقے سے بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزامات لگے اس سے بی جے پی کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ پارٹی کے اہم ترین لیڈر بشمول امت شاہ اور جے پی نڈا ریاست کے کئی اہم لیڈروںکے ساتھ کرناٹک کے مختلف علاقوںکا دورہ کر رہے ہیں۔ وزیراعظم بھی حال ہی میں کئی مرتبہ ریاست میں ترقیاتی کاموں کا اجرا کرچکے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود دال گلتی نظرنہیںآرہی۔ گزشتہ تین چار دن میں بی جے پی کے بڑے لیڈر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ جبکہ کچھ لیڈر تیسری طاقت جنتادل ایس میں بھی شامل ہوئے ہیں۔ جنتادل ایس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی قیادت کافی نصیب آور رہی ہے۔ غیرمتوقع طورپر ایچ ڈی دیوگوڑا کا وزیراعظم بننا اورپھر ریاست کی اہم ترین وزیراعلیٰ کے عہدے پر ان کے بیٹے کا غیرمتوقع طورپر وزیراعلیٰ بننا اس بات کی دلیل ہے ۔ پچھلی مرتبہ ان کی پارٹی کی پوزیشن اچھی نہ ہوتے ہوئے بھی کانگریس کی حمایت سے ان کو قائدانہ رول ادا کرنے کا موقع دیا۔ ظاہر ہے اس کا مقصد بی جے پی کو اقتدارسے باہر رکھنا تھا۔
کرناٹک کے جنوبی حصوںمیں جنتادل ایس ایک اہم سیاسی طاقت ہے۔ یہ پارٹی ریاست کے ایک اوربااثر ذات ویکالیگا برادری کی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ دیوگوڑا بھی ویکالیگا ہیں۔ کرناٹک کے وہ علاقے جو لنگایو کے دبدبہ والے سمجھے جاتے ہیں وہ شمالی اور وسطی کرناٹک ہے۔ اس علاقے میں بی جے پی کانگریس اور جنتادل ایس کااثرورسوخ ہے۔ پچھلے دنوں یہ دیکھا گیا کہ لنگایت ذات کے لوگوںنے کانگریس کا ساتھ دیا ہے اور بڑی تعداد میں لنگایت بی جے پی چھوڑکر کانگریس میں شامل ہوگئے ہیں۔ کانگریس جنوبی کرناٹک کے کئی علاقوں میں زبردست اثرورسوخ رکھتی ہے۔ کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر ڈی کے شیوکمار کا تعلق بھی ویکالیگا سے ہے۔ جنتادل ایس بنیادی طورپر دیوگوڑا خاندان کی پارٹی ہے۔ خاندان کی وفاداریاں ہی اس پارٹی کی بنیادی اساس ہیں۔ پچھلے لوک سبھا الیکشن میں جنتادل ایس کو کئی سیٹوںپر مشکلات کا شکار ہونا پڑا اور دیوگوڑا خاندان کے کئی لیڈر الیکشن ہار گئے۔ دیوگوڑا خاندان میں پارٹی میں بھی ٹکٹوںکی تقسیم کو لے کر کافی اختلافات ہیں۔ دیوگوڑا کے بیٹے ایچ ڈی روناّ اپنی بیوی بھوانی کو ٹکٹ دلاناچاہتے ہیں وہ سابق وزیراعلیٰ ایچ ڈی کماراسوامی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ دونوں بھائیوںمیں ہاسن سیٹ کولے کر زبردست کشمکش ہے۔ اورآخرکارسیاسی قد ہونے کی وجہ سے کماراسوامی نے اس سیٹ پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ خبریں ہیں کہ خاندان کے اندر خلفشار کھل کرسامنے آگئی ہے۔ پچھلی مرتبہ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں دیوگوڑا خاندان کا سوپڑا صاف ہوگیا تھا۔ اس وقت دیوگوڑا نے اپنی چہیتی ہاسن سیٹ اپنے پوتے پراجوال کو دے دی تھی اورخود ٹوماکرو سے الیکشن لڑا تھا مگر دادا اورپوتے دونوں اپنی سیٹیں ہار گئے تھے اورایک عوامی جلسے میں دیوگوڑا کو اشک بار بھی دیکھا گیا تھا۔ اسی طرح کماراسوامی کے بیٹے نکھل نے مانڈیا سیٹ پرالیکشن لڑا تھا وہ بھی الیکشن ہار گئے تھے۔ اورایک آزاد امیدوار سمن لتا امبریش الیکشن جیتی تھیں۔ اس طرح تین پارلیمانی سیٹوںسے خاندان کے تین اہم افراد الیکشن ہار گئے تھے۔
2018کے اسمبلی انتخابات میں جنتادل ایس نے 37سیٹوںپرکامیابی حاصل کی تھی جبکہ دوسرے نمبرپر کانگریس 80سیٹیں جیت پائی تھی۔ بی جے پی 105سیٹیں جیت کر پہلے نمبرپررہی تھی مگر جنتادل ایس اور کانگریس میں مفاہمت کے بعد بی جے پی اقتدارسے باہر رہی تھی۔ اس وقت بھی تیسری نمبرکی پوزیشن ہونے کے باوجودجنتادل ایس کو وزیراعلیٰ کا عہدہ ملا تھا۔ اب یہ بھی قیاس لگایا جارہا ہے کہ 2023کے الیکشن میں ایچ ڈی کماراسوامی دوبارہ اس پوزیشن میں آجائیںگے کہ وہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اپنا سیاسی کھیل کھیل سکیںگے۔ مگراس مرتبہ کانگریس کو بڑا اعتماد ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی اپنے دم پر حکومت بنا لے گی اورجنتادل ایس کی مدد کی اس کو ضرورت نہیں پڑے گی۔ اصل میں اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کے بار بار کے وطیرے کی وجہ سے ایچ ڈی کماراسوامی پر نہ کانگریس اور نہ ہی بی جے پی زیادہ اعتمادکر رہی ہے۔ 2004میں جب کرناٹک میں کسی بھی پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں ملی توکانگریس اورجنتادل ایس حکومت سازی کے لئے ایک ساتھ آگئے تھے۔ مگر کماراسوامی نے 2006میں کانگریس سے اتحاد چھوڑکر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ اگرچہ دیوگوڑا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوںنے اپنے بیٹے کی بی جے پی کے ساتھ جانے کی حرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا مگر بہرکیف ایچ ڈی کماراسوامی وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ اس طرح انہوںنے اپنی حلیف پارٹیوںکو دھوکہ دیا۔ دھوکہ کھانے والوںمیں بی جے پی اورکانگریس دونوں تھیں۔
جنتادل ایس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی لیڈرشپ یعنی کماراسوامی اپنی پارٹی کومتحد رکھنے میں بھی ناکام ہیں۔ جب یدورپا کو ممبران اسمبلی کی ضرورت پڑی تو کماراسوامی یدورپا کے ساتھ سودے با زی میں ناکام رہے اوران کی پارٹی میں افراتفری مچ گئی اورآخرکار ان کو استعفیٰ دینا پڑا اور ریاست میں اسمبلی کومعطل کرکے صدارتی راج نافذ کردیا گیا۔ وزیراعلیٰ کی کرسی گنوانے کے بعد انہوںنے اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کی اور بی جے پی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ مگرچنددن کے بعد ہی کماراسوامی نے یدوروپا کی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی اوریدورپا کو استعفیٰ دینا پڑا مگربعد میں یدورپا اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ اس طرح جنتادل ایس کے لیڈر بھلے ہی کنگ میکر کا رول ادا کر رہے ہوں مگر سیاسی وفاداری کے معاملہ میں وہ ایک قابل بھروسہ لیڈر نہیں رہے۔ 2018میں انہوںنے کئی مرتبہ قلع بازیاں کھائیں اور کبھی بی جے پی اورکبھی کانگریس کے خیمے میں دکھائی دیے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS