ہریانہ کے کرنال میں28اگست کو وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے دورے کی مخالفت کرنے والے کسانوں پر لاٹھی چارج کی جو غلطی کی گئی تھی، وہی غلطی اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں دہرائی گئی ۔یہاں انتظامیہ نے لاٹھی چارج جیساحکم تو صادر نہیں کیا البتہ امور داخلہ کے وزیرمملکت اجے مشرااور ریاست کے ڈپٹی وزیراعلیٰ کیشوپرساد موریہ کے دورے کے دوران جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ بتایاجاتاہے کہ مسٹر مشرا اورمسٹر موریہ ایک پروگرام میں شرکت کے لئے جارہے تھے ، جہاں انہیں کچھ اسکیموں کا افتتاح کرنا تھا۔تو جیساکہ ہریانہ اورمغربی اترپردیش میں کسی بھی علاقے میں کسان بی جے پی کے لیڈروں اوروزراکی آمد کی مخالفت کررہے ہیں۔لکھیم پور کھیری آنے کی جانکاری جیسے ہی ان کو ہوئی، انہوں نے اس ہیلی پیڈ پر قبضہ کرلیا جہاں ہیلی کاپٹر آمدکا پروگرام تھا۔ دونوں وزراکا قافلہ لکھنؤ سے سڑک کے راستے گیا ، اس کی بھی بھنک جیسے ہی کسانوں کو لگی۔ تو وہ کالے جھنڈے دکھانے کے لئے دوڑ پڑے۔ مرکز کے تینوں زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے کسان تو حسب معمول احتجاج کررہے تھے ،لیکن سرکاری قافلہ کی طرف سے جو ہوا ، وہ نہیں ہونا چاہئے تھا ۔خبر ہے کہ قافلہ میں سے ایک نے کسان مظاہرین پر اپنی گاڑی چڑھادی اورکئی کسانوں کو کچل دیا جس سے کچھ کی موت ہوگئی ۔ یہ منظر دیکھ کر کسان مشتعل ہوگئے اور 2گاڑیوں کو آگ لگادی۔یہ ناخوشگوار واقعہ اس وقت ہوا جب علاقہ میں وزراکی آمد کولے کر پائی جانے والی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے الرٹ کردیا تھا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علاقہ میں وزرااورلیڈروں کوکالے جھنڈے دکھانے کا یہ پہلامعاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی دکھائے گئے ہیں۔لیکن کالے جھنڈے دکھائے جانے کے بعد آج جو ہوا ، ویسا پہلے نہیں ہوا تھا ۔
ملک میں کسی معاملہ پر احتجاج یا ناراضگی کا اظہار برابر ہوتا رہتاہے ۔ پولیس اورانتظامیہ بھی مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتی ہے ۔ لیکن انتظامیہ کے علاوہ کوئی اوردھمکی دے اورکسی کو سبق سکھانے کے لئے گاڑی سے کچل دے جس سے موت ہوجائے یا زخمی ہوجائے اوربات بگڑجائے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔جو اندیشہ پہلے انتظامیہ نے ظاہر کرکے الرٹ کیا تھا اب وہی اندیشہ بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے ظاہر کرکے ضلع کے کسانوں کو الرٹ رہنے کو کہا ہے اوروہ خود لکھیم پور کے لئے روانہ ہوگئے ۔ دوسری طرف وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اے ڈی جی لااینڈآرڈر پرشانت کمارکولکھیم پور بھیجاہے ۔ رینج آئی جی لکشمی سنگھ بھی لکھنؤ سے لکھیم پور گئے ہیں ۔مرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ اورڈپٹی وزیر اعلیٰ کے دورے کے دوران اس طرح کا واقعہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے ، جن پر خود لااینڈآرڈر کو سنبھالنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ان کے لکھیم پور جانے کا مقصد پورا ہوگیا ،لیکن سوال یہ ہے کہ جو جانی نقصان ہوا ہے ، اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اورکیا اس سے بچانہیں جاسکتا تھا؟سبھی کو معلوم ہے کہ حکومت کے وزراجہاں بھی جاتے ہیں ، وہاں مخالفت میں کسان مظاہرہ کررہے ہیں تو اس کے لئے ویسا انتظام کیا جاتا تاکہ ناخوشگوار واقعہ نہیں پیش آئے ۔
سوال یہ نہیں کہ کسانوں پر گاڑی کس نے اور کیوں چڑھائی ؟اورکسان کیوں احتجاج کررہے تھے ؟اگر کوئی بات ہوگئی تو لوگوں کو مشتعل کرنے یا انہیں مشتعل ہونے کا موقع دینے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے نہ کہ معاملہ کو اوربگاڑدینا چاہئے ۔ لکھیم پور میں جس طرح کے حالات بن رہے ہیں ، کہیں وہاں بھی کرنال کی طرح مہا پنچایت اورسکریٹریٹ کے گھیرائو جیسے حالات نہ پیداہوجائیں۔ جب گزشتہ 10ماہ سے کسان صبر وتحمل کے ساتھ احتجاج ومظاہرہ کررہے ہیں اوربحران کو حل کرنے کے لئے نہ سرکار کی طرف سے کوئی کوشش ہورہی ہے اورنہ کسانوں کی طرف سے ۔ جب کسان تشدد سے حتی الامکان گریز کررہے ہیں تو ان کو نقصان پہنچا کر مزید مشتعل کرنے کو کوئی بھی دانشمندی نہیں کہہ سکتا۔گاڑی چڑھانے اورکسانوں کو کچلنے سے حالات اورخراب ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراکر اپنا دامن بچائیں گے ۔ایسا کرکے کوئی بھی اپنی نظر میں خود کو صحیح تو بتاسکتا ہے لیکن عوام کی نظروں میں نہیں ۔ اس لئے ایسے حالات سے حتی الامکان بچنا چاہئے ۔
[email protected]
کرنال والی غلطی لکھیم پور میں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS