محمد سراج حسین
کیفی اعظمی ترقی بسند تحریک سے وابستہ شاعروں میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں.ترقی پسند شاعروں میں تقریباً ہر ایک نے عورت پر ہو رہے جبر واستبداد کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا.ساتھ ہی عورت کی عظمت اور اس کی وقار کو پیش کیا.کیفی اعظمی کی نظم عورت کا ایک بند
قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلہ بھی ہے اشک نشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ مری جان مرے ساتھ چلنا ہے تجھے
عورت اس کائنات کی اکائی ہے.معاشرے اور تہذیب و تمدن کا جزو لاینفک ہے.اس لیے اسکا تحفظ وصد احترم لازمی ہے.ہر گزشتہ حیات میں اس کا وجود لازمی طور پر ہوتا ہے عورت جب بیوہ ہو جاتی ہے تو معاشرے میں اس کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کا اندازہ کیفی اعظمی کی نظم بیوہ کی خودکشی سے لگایا جا سکتا ہے.ایک ایسی بیوہ جس کی بیٹیاں ہوان ہیں جس پر ساس نند جا جبر ہوتا ہے.ہندو مذہب میں عورت کو دوسری شادی کربے کی اجازت ہی نہیں .اگر کوئی عورت یہ اقدام کرے تو تا عمر مطعون خلائق رہتی ہے کیفی اعظمی نے اس نظم میں محاکاتی خوبی پیدا کی ہے.یہ نظم کھلی تہذیب اور بان نہاد کلچر پر پرکاری ضرب لگائی ہے.نظم کا یہ حصّہ دیکھیں
چاہتی ہے لا کھ قابو دل پہ پاتی ہی نہیں
زخم خوردہ نوجوانی بس میں آتی ہی نہیں
جب کھنک اٹھتی ہے سوتی لڑکیوں کی چوڑیاں
آہ بن کر اٹھنے لگتا ہے کلیجے سے دھواں
آ رہے ہیں یاد پیہم ساس نندوں کے سلوک
پھٹ رہا ہے غم سے سینہ اٹھ رہی ہے دل سے ہوک
جب نظر آتا نہیں دیتا کوئی بیکس کا ساتھ
زہر کی شیشی کی جانب خود بخود بڑھتا ہے ہاتھ
دل تڑپ کر کہ رہا ہے جلد اس دنیا جو چھوڑ
چوڑیاں توڑیں تو پھر زنجیر ہستی کو بھی توڑ
دل انہیں باتوں میں الجھا تھا کہ دل گھبرا گیا
ہاتھ لے کر زہر کی شیشی لبوں تک آ گیا
تلملا تی آنکھ جھپکاتی جھجکتی ہانپتی
پی گئی کل زہر آخر تھرتھراتی کانپتی
موت نے جھٹکا دیا کل عضو ڈھیلے ہو گئے
سانس اکھڑی نبض ڈوبی ہونٹ نیلے ہو گئے
(بیوہ کی خود کشی)
مفلسی طبقاتی کشمکش بھوک اور ناداری کے خلا ف انقلابی اور اشتراقی شاعری پروان چڑھی کیفی اعظمی بھی لال جھنڈا کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے.لال جھنڈا میں کیفی نے کمیونزم کے اغراض و مقاسد کو پیش کیا.کیفی کمیونزم سے مغلوب ہوکر راست مقصد براری کا جھنڈا لے کر کھرے ہو جاتے ہیں ایسے میں وہ جسی گہری فلسفانہ فکر یا وگہری سوچ کو فنی بصیرت کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں.لال جھنڈا کا یہ حصّہ دیکھیں.
یہ وہ جھنڈا ہے لرز جاتے ہیں جن سے تاجدار
یہ وہ جھنڈا ہے اٹھے ہیں لے کے جن کو کامگار
نصب کر دیں گے اس اک روز ہر دیوار میں
کارخابوں میں ملوں میں کھیت میں بازار میں
یا پھر ۴۶ کی نظم سپردگی کا یہ ٹکڑا دیکھیں جس میں جوش ہی جوش ہیں.
روح زندانِ غلامی میں بھڑکتی ہے اُٹھو
چھاتی ہر فیکٹری کی آج دھڑکتی ہے اٹھو
جان دے دینے یا لڑجانے پر مجبور ہیں ہم
پھونک دو صور کے اب منتضر صور ہیں ہم
دو مہینوں بعد مئی ۴۵ء میں فتح برلن نظم کہی گئی ہے جس میں ایک طرح کا نشاطیہ کیفیت کا بیان ہے
ڈھل گئی شب صبح عشرت کا پیام آہی گیا
آفتاب ماسکو بالا ئے بام آہی گیا
فتح کا شعلہ لچک کر پھول برسانے لگا
شرخ پرچم سینء برلن پہ لہرانے لگا
اس نظم سے متاثر ہوکر کیفی اعظمی نے شبلی کو مخاطب کرکے مژدہ کے عنوان سے ایک نظم کہی جس میں جوش انقلاب ہے مگر بے قابو ہونے کی کیفیت نہیں ملا حظہ ہو.
حکومت پر زوال آیا تو پھر بام و نشاں کب تک
مبارک ہو کہ کروٹ لے رہا ہے آسماں شبلی
ہمارے خوں سے دامان گلستاں ہو چلا رنگیں
خزاں کے دم میں جکڑے پڑے ہیں سنگ دل کلچیں
خوشاں تہذیب انساں کے استادوں کو لے ڈوبیں
وہ خشر انگیزیاں شبلی وہ ظلم آرائیاں شبلی
کیفی کو اپنے ملک و قوم سے اور اس زندگی کی تہذیبی میراث سے بے حد دلچسپی ہے.اور انہیں قوم و ملت کی زبوحال کا احساس بھی ہے.انسان کی انسان پر حکومت انہیں غیر انسانی اور تہذیب انسانی کے منافی معلوم ہوتی ہے.علا مہ اقبال نے اس رویے کے خلا ف اظہار تاسف پیش کیا ہے.
ابھی تک آدمی سید زبون شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
کیفی کا بھی جذبہ احتجاج نظم تلنگانہ میں ابھر کر سامنے آیا ہے.دوران خون میں ایک طرح کی حدت کا احساس گوتا اور آدمی اپنی حریت اور تہذیبی ثقافتی میراث کے تحفظ کے لیے سینا سپر ہو جاتا ہے.
کہاں جہاد کہاں جدوجہد کی منزل
مفاہمت نہیں پاتی جہاد کا حاصل
ہوائے تند نے گوندی ہے زلف آزادی
بغاوتوں نے نکھارا ہے حسن مستقبل
کیفی اعظمی نے تشد د کو انسانیت کے لیے باعث تنگ تصور کیا.مطلق انسانیت کو تحذیبی تاریخ کے لیے شرمناک سمجھا.زیست اور مرگ کے درمیان سکستی ابسانیت کو کیفی نے اپنی نظموں کا حصّہ بنایا .یہ الگ بات ہے کہ کہیں جھنکار (۱۹۴۱ء) اور آخری شب (۱۹۴۷ء) کے نظموں میں برنی خطابت اور جذواتیت درآئی ہے.کیفی نے مزدور اور کسان طبقے کو انقلا ب پسند ہونے اور ان کے خلا ف صف آرا ہونے کا درس دیا ہے.
کیفی نے گر چہ ترنم و نوسیقی کا خیال رکھا ہے تاہم ان کی شاعری کہیں کہیں محض تشہیر یا پروپگنڈہ کی صورت اختیار کر گئی ہے.اسی نوعیت کا ایک نظم نئی جنت کا بند دیکھیں.
الٹ کر ایک ٹھوکر میں ستم کا راج رکھ دیں گے
اٹھ کر اپنی پستی کو سر معراج رکھ دیں گے
وہ ایک گل کی حکومت تھی کہ گلشن لٹ گیا سارا
ہم لب کے غنچے غنچے کی جبیں پر تاج رکھ دیں گے
کیفی اعظمی کی شناخت اردو شاعری میں چبد دومانی نظموں کے سبب ہی قائم رہے گی.انہوں نے جو بھی ہنگامی سیاسی نوعیت کی یا خاص تحریک سے وابستہ کے تحت نظمیں کہی ہیں ان میں بے کیفی اور نا پختگی ہے.
فطرت شرح میں فساد نہیں
رہزنی داخل جہاد نہیں
کہہ کے تکبیر باندھ کر نیت
ماؤں بہنوں کی لوٹ لی عزت
راس اقدام خوں میں ڈوب گیا
آج اسلا م خوں میں ڈوب گیا
…………………
لاش علم وادب کی حکمت کی
لاش کلچر کی آدمیت کی
لاش سوراج کی خلا فت کی
لا ش ہر جہد ہر بغاوت کی
……… ……..
روئے کشمیر سے اڑائی آب
لوٹ لی شان و شوکت پنجاب
ہو گئی مالوے کی نیند حرام
دات دے کے اودھ سے لے لی شام
آخر میں مزدوروں اور کسانوں کا اتحاد ہوتا ہے اور پھر موسم اور حالا ت بدلتے ہیں.
متحد ہو گئے کسان مگر
آنکھ جھپکی بدل گیا منظر
ختم ہوتا ہے دور خونخواری
لٹتی ہے لعنت زمیں داری
کیفی اعظمی (ترقی پسند تحریک)
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS