کاغذی دستاویزوں میں گم ہوتا انصاف

0

محمد حنیف خان

جمہوری طرز حکومت میں قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے اور یکسانیت ہی اس کی روح ہے لیکن یہ یکسانیت کب تک برقرار رہے گی اس کا انحصار اہل اقتدار پر ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حکومت جب عدلیہ میں دخیل نہیں اور عدلیہ ایک الگ آزاد ادارہ ہے تو بھلا وہ فیصلوں پر کیسے اثرانداز ہوسکتی ہے؟ تو یہ سوال محض برائے سوال ہے کیونکہ کوئی بھی معاملہ عدالت میں پہنچنے سے ایک پروسیس سے گزرتا ہے جس میں سب سے زیادہ دخیل یہی سیاست داں ہوتے ہیں۔سیاست آج منتظمہ اور پولیس پر اثرانداز ہونے کے ارد گرد کی اسیر ہوکر رہ گئی ہے۔کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں ہوتا ہے جس میں پہلے سیاست نہ ہوتی ہو، اس کے بعد وہ عدالت پہنچتا ہے اور جب عدالت پہنچتاہے تو اس کی اصل شکل بدل چکی ہوتی ہے۔فریادیوں کو سب سے زیادہ اسی طرز عمل نے متاثر کیا ہے اس وقت کی سب سے بہترین دو مثالیں ہیں۔ایک تو گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو اور دوسرے آسام میں مدرسوں کا انہدام ہے۔ پہلے معاملے میں ماورائے عدالت قاتلوں اور زانیوں کو رہا کیا گیا اور رہا کرنے والی کمیٹی میں سیاست داں ہی تھے۔ دوسرا معاملہ بھی کم اہم نہیں ہے، آسام میں مدرسوں کو کہہ کر منہدم کردیا گیا کہ وہاں ملک مخالف سرگرمیاں چل رہی تھیں اور جہاں بھی ملک مخالف سرگرمیاں ملیں گی، ان کو منہدم کردیا جائے گا۔
ان دونوں معاملات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات نظر آئے گی کہ سیاست دانوں نے اپنے مفاد کے لیے یا تو قانون کا غلط استعمال کیا ہے یا پھر قانون اور عوام دونوں کو گمراہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔پہلا معاملہ تو بالکل واضح ہے کہ اس میں قانون اور حقوق کا غلط استعمال کیا گیا، نیا قانون نافذ ہونے کے باوجود 1991 کے قانون کے مطابق قاتلوں اور زانیوں کی رہائی صرف اس لیے کی گئی کہ ان کا تعلق ہندو انتہا پسندی سے تھا جس نے مقتدرہ پارٹی کے اقتدار کو ملک میں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس لیے انعام کے طورپر ان کو وقت سے پہلے رہا کردیا گیا جبکہ آسام میں اس انتہا پسندی کا مظاہرہ خود حکومت نے ببانگ دہل کیا اور ماورائے عدالت اس نے عملی طور پر نہ صرف مدارس کو منہدم کیا بلکہ ایک ایسا بیانیہ قائم کیا جس میں مدرسوں کو دہشت گردی کا اڈہ ثابت کیا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ان دونوں معاملات میں حکومت اور اہل اقتدار کی بدنیتی نہ صرف شامل رہی بلکہ طشت از بام بھی ہوگئی۔
آسام میں جب مدرسے منہدم کیے گئے تو وہاں کے وزیراعلیٰ نے آن ریکارڈ یہ بیان دیا کہ منہدم مدرسے القاعدہ کے دفتر تھے، ہم نے ان میں سے دو یا تین کو منہدم کردیا ہے لیکن عوام اب ایسے مدرسوں کو منہدم کرنے کے لیے سامنے آرہی ہے۔ان کے اس بیان کے بعد ضلع گولپاڑا میں ایک مدرسے کو عوام نے منہدم کردیا لیکن اس کے پیچھے کی سچائی بعد میں سامنے آئی کہ عوام نے نہیں گرایا تھا بلکہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت بی جے پی کے ایک مسلم کارکن نے میڈیا کو بلا کر اس کے سامنے مدرسے کو منہدم کیا۔ان مدارس کا معاملہ جب عدالت میں پہنچا تو ایک نئی بات سامنے آئی کہ حکومت نے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ اس نے ان مدارس کو دہشت گردی کے الزام میں منہدم کیا ہے بلکہ اس نے اپنے حلف نامے میں بتایا کہ ڈزاسٹر مینجمنٹ کے معیار پر کھرا نہ اترنے پر ان مدارس کو منہدم کیا گیا ہے یعنی حکومت نے دو جگہ دو موقف قائم کیے ہیں۔عوام کے درمیان دہشت گردی کو بنیاد بنایا ہے اور عدالت میں ڈزاسٹر مینجمنٹ کو۔اس سے حکومت کی نیت اور اس کے قول و عمل کا تضاد صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس کا مقصد ملک سے دہشت گردی یا بد امنی کو ختم کرنا نہیں بلکہ اس کے پس پشت وہ زعفرانی ذہنیت ہے جس کے تحت ہندوستان سے مسلمانوں کے انخلا کی خواہش کی جارہی ہے۔ حکومت کا یہ دوہرا رویہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے، بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں صوبائی حکومتوں کا یہ رویہ عام ہوتا جا رہا ہے۔یہ سلسلہ اترپردیش سے شروع ہو کر مدھیہ پردیش پہنچا اور وہاں سے آسام پہنچ گیا۔ بلڈوزر پالیسی سب سے پہلے حکومت اترپردیش نے اپنائی جس نے مسلمانوں کے گھروں کو زمین دوز کیا۔ یہاں بھی آسام حکومت کی طرح دو موقف اختیار کیے گئے تھے۔عوام کے درمیان جو بیانات دیے گئے ،ٹی وی ڈبیٹ میں جو کہا گیا وہ یہ کہ مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف ایسی ہی کارروائی کی جائے گی،ان مظاہرین کو فسادی قرار دیا گیا تھالیکن جب عدالت میں اپنے موقف کی وضاحت کی باری آئی تو وہاں حکومت نے میونسپل کارپوریشن کو آگے کردیا اور اس کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ منظوری کے بغیر یہ مکانات تعمیر کیے گئے تھے، اس لیے غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا ہے، وہاں دھرنا و مظاہرہ اور فسادی کی کوئی بات ہی نہیں کی گئی۔بعینہٖ یہی رخ حکومت مدھیہ پردیش نے اختیار کیا تھا اور اب آسام کی حکومت نے مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کردیا ہے۔
ریاستی حکومتوں کے دوہرے رویے کیا عدالتوں کو نہیں معلوم ؟کیا عدالت میں منصفی کا فریضہ انجام دینے والے اس دنیا سے بے خبر ہیں؟یا وہ ٹی وی اور اخبارات نہیں دیکھتے ہیں؟یہ تو ایسے ہی ہوگیا کہ کسی نے سب کے سامنے قتل کیا ہو اور اس کے بعد وہ انکار کرتے ہوئے جھوٹے گواہ پیش کردے۔ عدالت کو بھی معلوم ہے کہ کورٹ سے باہر کیا ہو رہا ہے اور کورٹ کے اندر کیا ہو رہا ہے، وہ اگر آنکھیں موند کر حکومت کے موقف کو تسلیم کرلیتی ہے تو پھر ایک ایسی روش کی بنیاد پڑ رہی ہے جس میں کمزوروں، اقلیتوں اور محروم طبقات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔اس کو انصاف کہاں سے ملے گا لیکن عدالتیں دستاویز کی بھول بھلیوں میں انصاف کو گم کر رہی ہیں۔عدالتوں کو ایسے موقف کو خارج کرنے کا پورا حق ہے لیکن وہ اپنے اس حق کا استعمال نہیں کررہی ہیں کیونکہ اس کے پس پشت بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ چونکہ عدالتوں کو شجر ممنوعہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے ،کوئی بھی شخص اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے اور یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی کا فیصلہ بھی اکثریت کے حق میں آگیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان میںاقلیتوں کے لیے واحد درجہ عدالتیں تھیں اور اب بھی ہیں لیکن جس طرح سے عدالتیں حکومت کے موقف کو تسلیم کر رہی ہیں، اس سے یہ دروازے بھی بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حکومت کے دوہرے موقف کے علم کے باوجود اگر عدالتیں غلط موقف کو تسلیم کرتی ہیں جیسا کہ ابھی تک دیکھنے میں آ رہا ہے تو ملک کو دو بڑے نقصانات سے نبرد آزما ہونے پڑے گا۔ اول جمہوریت اور انصاف کی روح کا قتل ہوگا جس کے لیے حکومت اور عدلیہ ذمہ دار ہوں گی اور دوم معاشرے میں انارکی پھیلے گی کیونکہ اس سے جو بیانیہ قائم ہوتا ہے، وہ اکثریت کا ہے۔اکثریت کا تفوق معاشرے کو خاک و خون میں آلود کردے گا کیونکہ حکومت یہ عمل اسی لیے کر رہی ہے تاکہ اکثریت کو معلوم ہوجائے کہ وہ اکثریت میں ہیں اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ان کے ووٹوں کی بنا پر قائم حکومتیں ان کے تفوق کے مزاج کی آبیاری اقلیتوں کی تباہی و بربادی کے ذریعہ کر رہی ہیںجو ایک صحت مند معاشرہ اور جمہوریت کے لیے کسی بھی طرح سے نا تو مناسب ہے اور نہ ہی ترقی پسند ہوسکتا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتیں آنکھ بند کرکے حکومتوں کے موقف کو تسلیم کرنے کے بجائے مرکزی دھارے کے بیانیے کو بنیاد بنائیں اور معاشرے میں حکومتیں جو موقف اختیار کرتی ہیں، ان کو سامنے رکھیں۔ اس سے حکومتوں پر بھی نکیل لگے گی اور عوام کا اعتماد بھی جمہوریت اور اس کے طریقۂ انصاف پر بحال ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوا تو جمہوریت اور اس کی روح انصاف دونوں کاغذ کے دستاویز کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائیں گی اور عوام اکثریت کی تفوق کی نذر ہوجائیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS