گیان واپی مسجد بھی اکثریتی طبقہ کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہوگی؟

0

عبدالماجد نظامی

جب گیان واپی مسجد کے احاطہ میں مبینہ طور پر شیو لنگ کے پائے جانے کی افواہ گرم ہوئی اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع ہوا تو اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا تھا کہ کہیں بابری مسجد کے بعد گیان واپی معاملہ کو بھی سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ سیاسی مقصد کے حصول کے لیے تو استعمال نہیں کیا جائے گا؟ یہ خدشات بے جا نہیں تھے۔ آخر اس ملک نے رام مندر کے نام پر کی جانے والی فرقہ وارانہ سیاست کی بڑی قیمت چکائی ہے اور آج تک بابری مسجد کی شہادت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سماجی و سیاسی زخموں سے لہولہان ہندوستان کا وجود کراہ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ملک کا بہت بڑا حساس طبقہ یہ گوارہ نہیں کرتا ہے کہ مذہبی منافرت کے استعمال سے دوبارہ ہندوستان کی فضا اسی طرح مکدر ہوجائے جس طرح بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہوئی اور اس کے سنگین نتائج ملک کے عوام کو جھیلنے کی نوبت پیش آئی تھی۔ ان خدشات کا اظہار مختلف مقامات پر الگ الگ ذرائع ابلاغ سے کیا ہی جارہا تھا کہ تبھی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا بیان اس معاملہ کے تناظر میں آیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں تمام ہندوؤں سے کہا کہ وہ ہر مسجد کی بنیاد کے نیچے شیولنگ کو تلاش کرنا بند کریں۔ یہ بیان بہت واضح اور بروقت تھا کہ سنگھ پریوار اب مزید کسی مذہبی عبادت گاہ کے معاملہ کو ایشو بناکر فرقہ وارانہ سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز نہیں کرے گا۔ سنگھ پریوار اس سے قبل بھی اپنے اس موقف کا اظہار کرچکا ہے لیکن حقیقت بالکل مختلف معلوم ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اپنی قدیم سیاست پر آج بھی گامزن ہے اور اس کے قول و عمل میں گہرا تضاد پایا جاتا ہے۔ کم سے کم12ستمبر2022کو وارانسی کی ضلع عدالت کا جو موقف گیان واپی مسجد معاملہ پر سامنے آیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ اور دیگر بی جے پی لیڈران نے جس طرح کا ردعمل پیش کیا ہے، اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی کی پوری حمایت اس مسئلہ کو بھی حاصل ہے۔ ساتھ ہی وارانسی کی ضلع عدالت کا یہ فیصلہ کہ گیان واپی معاملہ میں مدعیان کو اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کا حق ہے اور اس مسئلہ پر سماعت کی جا سکتی ہے، نہایت افسوسناک پہلو ہے۔ حالانکہ انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے یہ اپیل داخل کی تھی کہ ان پانچ ہندو خواتین کے دعویٰ کو مسترد کر دیا جائے جس میں انہوں نے گیان واپی مسجد احاطہ میں سال بھر دیوی دیوتاؤں کی پوجا کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں ڈسٹرکٹ جج اے کے ویشویش نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نہ تو1991کا عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ، نہ ہی1995کا وقف ایکٹ اور نہ ہی1983کا شری کاشی وشوناتھ مندر ایکٹ مدعیان کے دعویٰ کو رد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدعیان کو اس بات کا حق ہوگا کہ وہ اپنے دعویٰ کو مضبوط دلائل کی روشنی میں ثابت کریں۔ اتنا کہتے ہوئے انہوں نے اگلی سماعت کے لیے22ستمبر کی تاریخ طے کر دی۔ قارئین واقف ہوں گے کہ گیان واپی معاملہ میں راکھی سنگھ اور چار دیگر ہندو خواتین نے عدالت میں اپنا یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ ہندو قوم1993تک ماں شرنگار گوری، لارڈ گنیش اور دیگر مرئی و غیر مرئی ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا اس مقام پر روز کرتی رہی ہے لیکن اس کے بعد اترپردیش سرکار نے ان کی پوجا پاٹ کو محدود کردیا تھا اور سال میں صرف ایک دن پوجا کی اجازت دی تھی۔ اسی دعویٰ کو بنیاد مان کر عدالت نے انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی اپیل کو خارج کر دیا اور کہہ دیا کہ1991کا عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ معاملہ کی سماعت کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے اس سلسلہ میں طویل قانونی دلائل پیش کیے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہندو خواتین کے دعویٰ کی مزید سماعت ہوگی، البتہ مسجد انتظامیہ کو اس کو رد کرنے کے لیے دلائل پیش کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اس معاملہ کی قانونی تفصیلات ہیں جن کا مطالعہ کرسکتے ہیں لیکن یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ گیان واپی معاملہ میں سماعت کے لیے رضامندی دے کر عدالت نے اکثریتی طبقہ کو ایک موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید بگاڑ دے اور انتشار و بے چینی کے ماحول میں اضافہ کا سبب بن جائے۔ ملک اس وقت جس اندرونی کشمکش کے دور سے گزر رہا ہے اور الگ الگ طبقوں کے درمیان جو نفرت کا ماحول تیار کر دیا گیا ہے، اس کی روشنی میں اس بات کا تقاضہ تھا کہ عدالتیں کم سے کم انتشار کے اس دائرہ کو محدود کرنے میں اپنا کردار نبھائیں۔ اس کے لیے عبادت گاہ ایکٹ ان کے سامنے موجود تھا جس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا تھا کہ آزادی کے وقت عبادت گاہوں کی جو نوعیت تھی، اس میں اب کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ اس ایکٹ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس عبادت گاہ ایکٹ کو چیلنج کرنے کے لیے جو بے شمار پٹیشن دیے گئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایکٹ کو ختم کروانا ہی ایک بڑا مقصد ہے اور وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ کے اس فیصلہ سے فرقہ پرست عناصر کو ایک ہتھیار مل گیا ہے جس کا استعمال وہ ملک کی اقلیت کے خلاف کریں گے۔ اب بس اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ جب مسجد کمیٹی انجمن انتظامیہ ہائی کورٹ میں اپنا موقف رکھے گی تو وہاں اس پر روک لگ جائے تاکہ مزید پیچیدگی اس سلسلہ میں نہ پیدا ہوجائے۔ یہی وقت اور حالات اور قانون کا تقاضہ ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS