بی ایس ایف کادائرہ اختیار

0

موجودہ سیاسی دور میں ریاستوں اورمرکز کے تعلقات اوراختیارات کچھ اس طرح ہوگئے ہیں کہ معمولی معمولی بات پر تنازع کھڑا ہوجاتا ہے اور ایک دوسرے پر حدود سے تجاوزکرنے یامداخلت اور عدم تعاون کا الزام فوراً لگا دیا جاتا ہے ۔تازہ معاملہ بارڈر سیکورٹی فورسیز (بی ایس ایف ) کے دائرہ اختیار میں اضافہ کا ہے ۔جو مختلف ریاستوں میں الگ الگ ہے ۔مسئلہ ملک کی سیکورٹی سے جڑا ہوا ہے جوحساس ہے ۔اس لئے زیادہ ہنگامہ نہیں ہونا چاہئے لیکن ارادتاً یا غیر ارادتاً کچھ اس طرح سے قدم اٹھایا گیا یا پیش کیا جارہا ہے، جیسے بات کچھ اورہے۔ 12ریاستوں کا معاملہ ہے ، وہاں بی ایس ایف پہلے بھی تعینات تھی ، اب بھی ہے اورضرورت پڑی تو آگے بھی رہے گی ۔بات صرف یہ ہے کہ کہیں اس کے دائرہ اختیار میں اضافہ یا کمی کی گئی ہے اوریہی قدم متنازع بن گیا ۔ مسئلہ کو بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے بلکہ کرنا چاہئے تاکہ کسی کو پریشانی نہ ہو اورسیاسی مسئلہ نہ بنے ۔دراصل مرکزی حکومت نے دائرہ اختیار میں تبدیلی بی ایس ایف ایکٹ 1968 کے سیکشن 139 (1) کے تحت کئے گئے التزامات کی بنیاد پر کی ہے۔جس کا اثر ملک کی 12 ریاستوں پنجاب، مغربی بنگال ، گجرات ، آسام ، منی پور ، میزورم ، تریپورہ ،ناگالینڈ،میگھالیہ ، جموں وکشمیر اور لداخ پر پڑے گا ۔یہ وہ ریاستیں ہیں، جو پاکستان اوربنگلہ دیش سے متصل ہیں اور وہاں بین الاقوامی سرحد ہونے کی وجہ سے بی ایس ایف کے جوان تعینات رہتے ہیں کیونکہ سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری ان ہی کی ہے ۔ وہ دراندازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں ۔اس کیلئے ان کا دائرہ کار یا دائرہ اختیار پہلے سے مقرر تھا جس میں تھوڑی سی ترمیم کی گئی ۔نئی ترمیم سے 3ریاستوں مغربی بنگال ، پنجاب اورآسام میں کارروائی کا دائرہ اختیار پہلے سے بڑھ جائے گا جبکہ گجرات میں کم ہوجائے گا ۔ شمال مشرق کی 5ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام جموںوکشمیر اورلداخ میں کہیں بھی بی ایس ایف کارروائی کرسکتی ہے ۔
غورطلب امریہ ہے کہ بی ایس ایف کے دائرہ اختیارمیں تبدیلی سے متاثر تو 12ریاستیں ہورہی ہیں لیکن مخالفت و اعتراض صرف 2ریاستوں کو ہے۔یہ دونوں اپوزیشن حکومت والی مغربی بنگال اورپنجاب ہیں جہاں بی ایس ایف کا دائرہ اختیار بڑھادیا گیا ہے۔حالانکہ زد میںکانگریس کی حکومت والی راجستھان بھی ہے لیکن وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، اس لئے مخالفت نہیں ہورہی ہے۔رہی بات گجرات کی تو وہاں دائرہ اختیار کم کردیا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی مخالفت کی وجہ ہو۔دراصل ملک کے وفاقی قوانین کے مطابق امن وقانون ریاست اور سرحدوں کی حفاظت مرکز کا موضوع ہے۔جن 3ریاستوں میں دائرہ اختیار بڑھایا گیا ، وہاں پہلے بی ایس ایف مجسٹریٹ کے حکم اوروارنٹ کے بغیر سرحد سے 15کلومیٹر اندر تک کارروائی کرسکتی تھی، اس حد کوبڑھاکر 50کلومیٹر کردیا گیا۔یہی حدراجستھان میں بھی ہے۔جبکہ گجرات میں پہلے سرحد سے 80کلومیٹر اندر تک بی ایس ایف کارروائی کرسکتی تھی لیکن اب اسے کم کرکے 50 کلومیٹر کردیا گیا ۔بہرحال جہاں تک بی ایس ایف کا دائرہ اختیار رہتا ہے ، وہاں تک وہ بلا روک ٹوک کارروائی کرتی ہے لیکن اس کے آگے سیکورٹی کی ذمہ داری ریاستی پولیس کی ہوتی ہے ۔
بی ایس ایف کے دائرہ اختیارمیں اس تبدیلی کو جہاں حکومت مغربی بنگال وفاقی ڈھانچے کی خلاف ورزی اوراس پر حملہ بتا رہی ہے تو حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ اس سے نصف سے زیادہ ریاست مرکز کے کنٹرول میں چلی جائے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے مذکورہ فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ریاست اورمحفوظ ہوجائے گی۔ دیکھا جائے تو یہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ریاستی مشینری اپنے دائرہ اختیار میں کام کرے گی اوربی ایس ایف کے پاس پاسپورٹ ایکٹ ، این ڈی پی ایس ایکٹ اورکسٹم ایکٹ جیسے مرکزی قوانین کے تحت تلاشی، ضبطی اورگرفتاری کے اختیارات ہوں گے ۔کوآرڈی نیشن اورتال میل ہو تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا اورنہ کسی کے کام اوراختیارات میں مداخلت ہوگی۔جو پریشانی بی ایس ایف کو دائرہ اختیارکم ہونے کی وجہ سے ہورہی تھی ، دائرہ اختیار بڑھنے سے اگر وہ ریاستی پولیس کو ہوسکتی ہے تواس کا حل تال میل ہے۔ مذکورہ تبدیلی اگرمتعلقہ ریاستی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر کی جاتی تو شاید ایسے حالات نہیں پیدا ہوتے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS