نماز جمعہ اور جوشِ تقریر

0

محمد رضوان ندوی

شریعت نے ہر چیز میں انسان کی کمزوری اور اس کی ضروریات کا لحاظ رکھا ہے، اس کی طاقت، صلاحیت اور امکان سے زیادہ کبھی اور کہیں مکلف نہیں بنایا، زندگی کے ہر مرحلے میں مکمل رہنمائی کرکے اپنی کاملیت اور اہمیت ثابت کی ہے، کھانے، پینے، سونے، جاگنے، کام کرنے اور آرام کرنے کے آداب اور اوقات بتائے، لین دین اور اخلاق و معاملات کے شعبے میں بھی درست طریقہ اور مناسب برتاؤ بتایا، اسی طرح نماز اور عبادت کا طریقہ سکھایا اور اس کے اوقات متعین کئے، جو معاملہ بندوں سے متعلق تھا اس میں تخفیف، کمی اور بے اصولی برتنے سے منع کیا لیکن رب العالمین کی مہربانی دیکھئے کہ طاقت اور صلاحیت کے اعتبار سے اپنے حقوق میں معافی اور ڈسکانٹ کا اعلان کیا، آپ نے کسی سے دس لاکھ روپئے قرض لئے ہیں اور آپ کسی وجہ سے کچھ بے بس اور مجبور ہو گئے ہیں تو قرض دینے والا آپ سے اکثر پورے پیسوں کا مطالبہ کرے گا وہ شاید معاف نہ کرپائے۔
لیکن آپ سخت بیمار اور مجبور ہو جائیں، نماز کا وقت آجائے توحسب حالت و ضرورت بیٹھے بیٹھے، لیٹے لیٹے بلکہ اشارے سے نماز پڑھ سکتے ہیں، روزہ پر قدرت نہیں ہے تو فدیہ ادا کر دیجئے، حج اور عمرہ کیلئے استطاعت نہیں ہے تو مکمل معافی ہے، کتنی رعایت کی گئی ہے؟نمازوں میں بھی کچھ گائیڈ لائن بنادی گئی، کس وقت انسان میں کتنی بشاشت اور دلچسپی رہتی ہے اس کے لحاظ میں طوال مفصل، اوساط مفصل اور قصار مفصل کا مناسب ضابطہ دیا، انسان کو نصیحت کی کتنی اور کب کب ضرورت ہے سب بتا دیا اور بتاکر کامل و اکمل کی مہر لگا دی لیکن آج کل کے خطیب…. سب بھول گئے، جوش تقریر کے سامنے کسی کا لحاظ نہیں رہ گیا، منبر اور مائک مل جائے تو ساری حدیں پار کرنے کے لئے تیار، ایسا جنون اور جوش کہ نہ مسافر کا خیال نہ کمزور، ضعفا اور بیماروں کی رعایت، اپنی زندگی میں عمل ہو نہ ہو کڑوے کسیلے انداز اور گرجتی برستی آواز میں آدھا آدھا اور ایک ایک گھنٹہ بس وعید پر وعید ہر مسجد میں آٹھ دس گھڑی ہونے کے باوجود ان کو وقت کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا، صاف صاف جلی حروف میں لکھا رہتا ہے کہ نماز مقررہ وقت پر فرض ہے، حد تو یہ ہے کہ جمعہ کے علاوہ دیگر نمازیں وقت پر ہوتی ہیں لیکن جس میں سب سے زیادہ لحاظ رکھنا تھا وہیں چوک ہوتی ہے اور اکثر جمعہ میں پانچ دس منٹ تاخیر ہو ہی جاتی ہے، مقرر حضرات پانچ دس منٹ کی تاخیر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اس زیادتی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، ایک عام سی بات سمجھ کر اگلے ہفتہ پھر اسی زیادتی اور جوش کا شدت سے مظاہرہ کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ اسے اپنی عادت ثانیہ اور معمول میں شامل کر لیتے ہیں، کوئی اعتراض کردے تو بجائے ندامت کے جرأت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ بڑی اہم بات رہ گئی تھی، اہم پیغام اچانک ذہن میں آگیا تھا، ایک اہم مسئلہ اور تقریر کا خلاصہ باقی رہ گیا تھا، طرح طرح کے بہانے، طفلانہ تسلیاں، ذرا سا بھی نہیں سوچتے کہ ہماری یہ دس پانچ منٹ کی زیادتی کسی مسافر کی بس اور ٹرین چھوڑواکر اس کی پریشانی میں اضافہ کر رہی ہے، کوئی بیمار اور معذور شخص ایک گھنٹہ سے بیٹھے بیٹھے وضو پر کنٹرول کھو چکا ہے، کوئی شوگر کا مریض ہے، اس کے لئے پیشاب روکنا مشکل ہے، کسی کو گیس کی بیماری ہے، کسی کا ہاضمہ خراب ہے، بار بار بیت الخلاء جانے کی ضرورت ہے، بہت سے اعذار ہو سکتے ہیں، آپ نماز ٹائم بورڈ پر ایک بجے خطبہ کا اعلان و وعدہ کرتے ہیں اور ذرا سی بے توجہی اور وقت کی ناقدری کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو تکلیف پہونچانے کا سبب بنتے ہیں، یہ سراسر ظلم، زیادتی اور ایذا رسانی ہے، وقت کی ناقدری اور وعدہ خلافی ہے، بہت سے ضرورت مند انسان دس دس منٹ بچانے کے لئے کسی مخصوص مسجد کا انتخاب کرتے ہیں اور جب وہی دس منٹ نہیں بچتے یا کوئی کام وقت کی وجہ سے بگڑ جاتا ہے تو انھیں سخت تکلیف ہوتی ہے۔اس سلسلے میں بہت احتیاط اور لحاظ کی ضرورت ہے۔
جمعہ کی اذان اور خطبہ میں بہت زیادہ وقفہ نہیں ہونا چاہئے، لمبے وقفے سے اکثر غفلت ہو جاتی ہے اور وضو و یکسوئی کے ساتھ بیٹھے رہنے میں دقت ہوتی ہے، معذور افراد تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جو وقت خطبہ اور نماز کا متعین کیا جائے اس پر ہر حالت میں پابندی کی جائے، آپ دور نبوی، دور صحابہ و تابعین کے علاوہ موجودہ دور میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے ائمہ کی مثالیں عبرت کے طور پر لے سکتے ہیں، عرفہ کا خطبہ سب سے بڑا اور غیر محدد ہونا چاہئے کیوں کہ ویسا مجمع شاید ہی کسی اور موقع پر جمع ہو سکے لیکن اس میں بھی بڑی رعایت اور لحاظ سے کام لیا جاتا ہے تاکہ انسانیت کو تکلیف سے بچایا جا سکے، زیادہ بولنے اور دیر تک بولنے کی فضیلت اور ضرورت آج تک میری سمجھ میں نہیں آسکی. زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہونچانے اور زبان کو قابو میں رکھنے اور کم بولنے کی تاکید تو بہت سنی اور دیکھی ہے لیکن جوامع الکلم اور ایجاز کلام کے بجائے ساری چرب زبانی خاص احتیاط والے مواقع پر دکھانے کی مسلسل جرات ناقابل فہم اور بعید از تسلیم ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS