جے این یو کا کلچر امیر و غریب کی تفریق کو ختم کرتا ہے، انسانیت،اتحاد و اتفاق اور تعلیم و تربیت کا مرکز ہے جے این یو،8700طلباءحاصل کرتے ہیں تعلیم

0

    سید عینین علی حق
    نئی دہلی:تعلیمی ادارے محض تعلیم نہیں دیتے بلکہ طلباءکی شخصیت و کردار سازی اور تربیت میں بھی اہم کردارادا کیا کرتے ہیں۔کیوں کہ بغیر تربیت کے تعلیم کا تصور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ملک میں ایسے متعدد تعلیمی ادارے ہیں ،جس نے عام بچوں کو عظیم شخصیت کے طور پر دنیا سے متعارف کرایا ہے۔ ملک میں ایسی بے شمار بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔ جن میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ 
جے این یو کا قیام22اپریل 1969میں عمل میں آیا تھا۔ جسے ملک کے سب سے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اور پروفیسر مونس رضا جے این یو کے پہلے وائس چانسلر بنائے گئے تھے۔جے این یو کے قیام کے لیے راجیہ سبھا میں اس وقت کے وزیر تعلیم ایم سی چاگلہ نے یکم ستمبر 1965کو بل پیش کیا تھا۔اور 16نومبر 1966کو لوک سبھا میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے قیام کے لیے بل منظور کرلیا گیا تھا۔اور آج جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا شمار ملک کی اہم یونیورسٹی میں ہوتا ہے، جہاں ملک کے مختلف شہروں سے آئے تقریباً8700سو طلباءتعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جے این یو میں کل 18ہاسٹل بھی ہیں، جس کی وجہ سے طلبا کو کافی سہولت ہوتی ہے۔
جے این یو کی تعلیم وتربیت اور تہذیب کے حوالے سے نمائندہ نے خصوصی گفتگو کی۔ 2012میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی صدر رہ چکی سوشیتا نے گفتگو کرتے ہوئے جے این یو کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔ سوشیتا نے کہاکہ جے این یو ایک عظیم درس گاہ ہے ، جہاں ہر جگہ سے لوگ آتے ہیں اور ان کا تعلق ہر طبقے سے ہوتا ۔ جے این یو کی ایک منفرد دنیا ہے۔جہاں سب کے حقوق مساوی ہیں ، کسی قسم کی تفریق نہیں پائی جاتی ہے۔کسی بھی بچے کا بیک گراو¿نڈ کچھ بھی ہے ، اس کے گھروالوں کے پاس کتنی ہی دولت ہو یا نہیں ہو، یہ سب باتیں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔یہاں صرف تعلیم نہیں دی جاتی، بلکہ شخصیت سازی کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی درس دیا جاتا ہے۔یہاں کے ڈھابے میں سستے کھانے ملتے ہیں۔ جس میں کوئی تفریق نہیں ہوتی بلکہ سبھی کو ایک قسم کا کھانا ملتا تھا۔جے این یو میں امیر غریب سبھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
2018-2019میں جے یو اسٹوڈنٹ یونین کے صدر رہے این سائیں بالا جی نے کہاکہ جے این یو غریبوں کے لیے ہی بنائی گئی تھی۔ کیوں کہ یہاں سستی تعلیم دی جاتی ہے۔ جے این یو غریب طبقے کے طلباءکے لیے خواب سے بڑھ کرہوا کرتا ہے۔جہاں سبھی طبقے کے طلباءآتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ملک میں نیشنل ایجوکیشن مالیسی کو فروغ دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ جے این یو کی فیس سالانہ تیس سے چالیس ہزار ہے جب کہ اسے ساٹھ سے ایک لاکھ روپے تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسکول آف لینگویج کاو¿نسلرجنیدرضاجے این یو کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے کہ غریب اپنی تعلیم مکمل کرسکتا ہے۔یہاں لائبری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی، لیکن اب رات دس بجے بند کردی جاتی ہے۔جے این یو میں پوری رات کوئی بھی لڑکی محفوظ گھوم سکتی ہے اور لڑکیاں بھی خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی ہے۔ لیکن جے این یو میں کچھ چیزیں مسلط کی جارہی ہیں۔اب یہاں ڈریس کوڈ بھی نافذ کردیا گیا ہے۔جے این یو کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں بھی ہیں تو آپ کو کھانا مل جاتا ہے، تعلیم کے حصول میں کسی قسم کی دشواریاں درپیش نہیں آتی ہیں۔جب کہ دیگر یونیورسٹی میں ہر مہینے پابندی سے میس کی فیس جمع کرنی ہوتی ہے۔بہتر تعلیم کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ بھی طلباءکے ساتھ گھلے ملے رہتے ہیں، اور مختلف موضوعات پر بات چیت کی جاتی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ جے این یو کی تہذیب تفریق پیدا نہیں کرتی بلکہ تمام تفریق کو ختم کرتی ہے۔
سوشوجی ایم اے کی طالبہ پنچم لوہاٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں ہریانہ کے کیتھل سے ہوں۔جہاں لڑکے اور لڑکیوں کے مابین بہت زیادہ تفریق کی جاتی ہے۔اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی ہوا کرتی ہیں ،اور میں اسی ماحول میں پلی بڑھی۔لیکن جے این یو میں یہ سبھی تفریق ختم ہوجاتی ہے۔جے این یو اپنے آپ میں ایک کلچرل کا نام ہے۔
یہاں تہواروں کے موقع پر بلا تفریق مذہب وملت سبھی ایک دوسرے کا تہوار مناتے ہیں۔میں نے رمضان میں روزہ رکھا ۔ہم سب مل کر افطار بھی کرتے ہیں۔پوجا میں بھی سبھی شرکت کرتے ہیں۔ اور ہم ایسا ماحول باہر بھی چاہتے ہیں۔جہاں امن وسلامتی اور قومی یکجہتی ہو۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS