شاہد زبیری
یو پی کے ہردوئی ضلع میں یکم نو مبر کو رتھ یاترا کے دوران سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے ریلی کو خطاب کرتے ہوئے نہ جانے کس سیاسی مقصد اور کس سوچ اور ارادے سے آزادی کی جنگ میں نہرو ، سردار پٹیل اور جناح کی فکر اور سوچ کو یکساں قرار دیتے ہوئے جناح کو جنگ آزادی کا ہیرو قرار دے دیا اور تو اور لندن میں تعلیم کے حوالے سے جناح کو مہاتما گاندھی اور نہرو کے برابر لا کھڑا کیا۔ اس کا جو نتیجہ سامنے آنا چاہیے تھا، وہ آیا اور جناح کا جن ایک مرتبہ پھر بوتل سے باہر نکل آیا۔ ان دنوں یوپی کی سیاست پر جناح کے جن کا سایہ پڑا ہوا ہے۔ اس کا سیاسی فائدہ اور نقصان کس کو ہو گا، یہ تو وقت بتا ئے گا لیکن اس متنازع بیان پر یو پی کی سیاست گرما گئی ہے اور بی جے پی ہی نہیں، کانگریس اور بی ایس پی کے ساتھ اکھلیش یادو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے نشانے پر آگئے ہیں ۔
یوپی کے وزیر اعلیٰ نے اس بیان کو شرمناک اور طالبانی ذہنیت بتایا، ملک کی تقسیم سے اس کو جوڑا اور معافی کا مطالبہ کیا۔ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے اکھلیش یادو کو اکھلیش سنگھ علی جناح کا اور سماجوادی پارٹی کو نماز وادی پارٹی کے نام اور خطاب سے نواز ا اور مسلمانوں کے حوالے سے یہ مذموم طنز کیا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا جو بیان سامنے آیا،اس میں بھی بی جے پی لیڈروں کے بیان کی تائید جھلکتی ہے۔ کانگریس کے ترجمان اشوک سنگھ نے بھی حملہ بولا اور سماجوادی پارٹی کو اصل ایشوز سے دھیان ہٹانے والی پارٹی اور بی جے پی کی بی ٹیم بتایا۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے سماجوادی پارٹی کو بی جے پی کی طرح فرقہ پرست پارٹی ٹھہرایا لیکن بی جے پی لیڈران کے ساتھ اسد الدین اویسی نے اکھلیش یادو کے اس متنازع بیان کے پس پردہ مسلمانوں کی خوشنودی قرار دے کر پورے اس تنازع کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا اور اس بحث کا حصہ بنا دیا۔ اکھلیش نے جناح کا نام لے کر کس کو خوش کرنے کی کوشش کی، یہ تو وہ ہی جا نیں لیکن ان کے بیان پر جناح اور مسلمان پھر سیاسی گلیاروں اور میڈیا کی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
آزادی کے ساتھ ملک کی تقسیم کے سانحے کو ایک تہائی صدی سے زیادہ گزر گئی لیکن جناح کا جن کسی نہ کسی بہانے ہندوستانی سیاست پر اپنا سایہ ڈالتا رہتا ہے۔ یہ بات متفق علیہ ہے کہ جناح ہندوستان کے لیے ایک ولن کا اور پاکستان کے لیے ایک ہیرو اور بابائے قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ دو قومی نظریے کے بانیا ن اور ملک کی تقسیم کے لیے ذمہ دار مانے جا نے والے دیگر کٹر وادی ہندو لیڈروں اور سیکو لر لیڈروں اور پارٹیوں کا نام لے کر مطالبہ پاکستان کی جناح کی تاریخی اور ہمالیائی غلطی کو معاف نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ پاکستان کا مطالبہ جناح اور ان کی پارٹی مسلم لیگ نے ہی کیا تھا، کسی اور نے نہیں۔ یہ حقیقت بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جناح کی اس غلطی نے برصغیر کے مسلمانوں، خاص کر ان مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا یا ہے جنہوں نے دو قومی نظریے کو مسترد کر دیا تھا اور مطالبہ پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی۔ آزادی اور تقسیم ملک کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کی تیسری چوتھی پیڑھی اس نقصان کو آج بھی جھیل رہی ہے اور نہ جانے کب تک جھیلے گی۔ اس غلطی سے ہونے والے نقصانات کی پیش گوئی ہمارے اکابر علماء مولانا محمود الحسن ؒ،مولانا حسین احمد مدنیؒاورمولا نا ابو الکلام آزاد ؒجیسے باہوش قائدین پہلے ہی کر چکے تھے جو آج درست ثابت ہو رہی ہے۔ ہم اس بحث کو طول دینے کے بجا ئے اگر آج کے سیاسی تناظر میں دیکھیں تو پائیں گے کہ جس کسی نے بھی تقسیم سے پہلے کی جناح کی شخصیت کو سامنے رکھ کر ان کی تعریف و توصیف کی، اس کا سیاسی انجام عبرتناک ہوا خواہ وہ پرائم منسٹر اِن ویٹنگ سمجھے جا نے والے کٹر ہندو وادی لیڈر لال کرشن اڈوانی ہوں یا بی جے پی کے قدآور لیڈر جسونت سنگھ ۔ لال کرشن اڈوانی نے کراچی، پاکستان میں جناح کے مزار پر جا کر جو بیان دیا اور وہاں رکھے رجسٹر میں جو تعزیتی کلمات اور تاثرات درج کیے اور جناح کو سیکو لر لیڈر قرار دیا،ا س کانہ صرف ہندوستان میں شدید رد عمل ہوا بلکہ اڈوانی اپنے خلاف سیاسی طوفان سے اٹھی گرد میں گم ہو گئے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی نے بھی ان سے قطع تعلق کرلیا اور وزیر اعظم بننے کا ان کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں بھی ایک بڑے سیاسی طبقے نے جناح کو سیکولر لیڈر بتائے جانے پر سخت ناراضگی ظاہر کی اور اس کو پاکستان کے بابائے قوم کے اسلامی تشخص پر حملہ قرار دیا۔ کچھ ایسا ہی جسونت سنگھ کے ساتھ بھی ہوا۔ انہوں نے انگریزی میں لکھی اپنی کتاب میں جناح کو ایک سیکولر اور قدآور لیڈر بتا کر سنگھ پریوار اور بی جے پی کو اپنا دشمن نمبر ایک بنا لیا اور اس دوران شملہ میں ہو نے والی بی جے پی کی مجلس عاملہ کی، جس کے وہ رکن تھے، میٹنگ میں بی جے پی نے جسونت سنگھ کی شر کت پر پابندی لگا دی اور وہ بھی اڈوانی کی طرح ہندوستانی سیاست کا ایک المیہ کردار بن گئے۔ اگر اتنے بڑے قدآور لیڈروں کو جن کے راشٹر واد پر کبھی انگلی نہیں اٹھی، جن کی تربیت آر ایس ایس کی شاکھائوں میں ہوئی، ان کی جب یہ درگت بنی اور یہ سیا سی حشر ہوا تو کوئی دوسرا کیسے جناح کی تعریف کر نے کے بعد کسی سیاسی نقصان سے بچ سکتا ہے۔ اور تو اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے ہال میں آزادی سے پہلے آویزاں جناح کی تصویر پر اٹھے تنازع نے یونیورسٹی انتظامیہ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا تھا اور سخت گیر ہندو ودای تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ یہ سب واقعات ابھی کل کی بات ہیں۔ ہر چند کہ اپنے اسی متنازع بیان میں، جس میں اکھلیش یادو نے جناح کو قومی لیڈروں کے برابر لاکھڑا کیا، یہ بھی کہا تھا کہ سردار پٹیل جیسے مرد آہن نے ملک کو تقسیم کرنے والی سوچ پر پابندی لگا ئی۔ ان کا صاف اشارہ آر ایس ایس کی طرف تھا۔ اس وقت آر ایس ایس پر گاندھی جی کے قتل کا الزام تھا۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ وہ ہمیں ذات پات اور مذہب میں تقسیم کرنے کا کام کر رہے ہیں، ان کے بیان کا یہ حصہ جناح کی تعریف کے بوجھ تلے دب گیا۔ اپنے اس بیان پر تاحال انہوں نے نہ تو کوئی وضاحت پیش کی اور نہ ہی شرمندگی کا اظہار کیا معافی تو دور کی بات، تاہم ان کی پارٹی کے قومی ترجمان ڈاکٹر آشو توش ورما کی طرف سے بیان پر اٹھے اس تنازع کے تناظر میں ایک بیان ضرور سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بی جے پی ہمیشہ ایسی ہی احمقانہ بات کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اور پارٹی کے لوگ آزادی میں کردار نبھا نے والے مہا پُرشوں کا سمّان کرتے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کو جہاں اپنا احتساب کرنے کی صلاح دی وہیں یہ الزام بھی لگا یا کہ بی جے پی پسماندہ طبقات دلتوں اور اقلیتوں کی ہمیشہ مخالف رہی ہے اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہی کیشو پرساد موریہ ( نائب وزیر اعلیٰ) کی ( وزیر اعلیٰ کی) کرسی پہلے ہی چھینی جا چکی ہے، اب اسٹول بھی چھن جائے گا۔ سماجوادی پارٹی کے قومی ترجمان نے اپنے اس بیان میں آزادی کے کردار میں مہا پرشوں کے کردار کا حوالہ دے کر اکھلیش یادو کا بچائو تو ضرور کیا لیکن ان کے متنازع بیان کی کوئی صفائی یا وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ قومی ترجمان کے اس بیان سے یہی ظا ہر ہوتا ہے کہ اکھلیش یادو کا جناح کی بابت دیے گئے بیان پر پارٹی اورخود اکھلیش یادو کو کوئی تاسف نہیںہے لیکن یو پی کی سیاست پر نظر رکھنے والے یہ مانتے ہیں کہ اکھلیش یادو کا یہ بیان پارٹی کے سیاسی رتھ کے لکھنؤ سیکریٹریٹ جا نے میں روڑہ بن سکتا ہے۔ اکھلیش یادو بی جے پی کے خلاف جس طرح مضبوط بن کر سامنے آئے تھے، اس بیان کے بعدیو پی کے اکثریتی طبقے کے رائے دہندگان میں ان کی مقبولیت کا گراف کم ہوا ہے اور وہ خود اور ان کی پارٹی اس بیان کا کھل کردفاع نہیں کر پا رہے ہیں اور یہ خدشہ بھی ابھر رہا ہے کہ مشرقی یو پی اور مغربی یو پی کی جو چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں سماجوادی پارٹی کی چھتری کے نیچے جمع ہو رہی تھیں، وہ اس بیان سے اپنا دامن بچا نے کے لیے سماجوادی پارٹی سے خود کو الگ کرسکتی ہیں اور کوئی نیا سیاسی محاذ بن سکتا ہے۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کی چھتر چھا یا میں بننے والے بی جے پی مخالف سیاسی محاذ میں شیو پال یادو کی پرگتی شیل سماجوادی پارٹی کی شمولیت کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سماجوادی پارٹی پر ابھی تک یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ 2022 کے ہو نے والے انتخاب میں اپنے اوپر مسلم نواز ہو نے کے لیبل سے بچنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس کی ریلیوں میں اسٹیج سے مسلم چہرے غائب ہیں۔ سہارنپور کے قصبہ تیتروں کی ریلی کے اسٹیج پر پارٹی کے قدآور مقامی مسلم لیڈر اکھلیش کے اسٹیج سے غائب تھے۔ سماجوادی پارٹی کی سرکار میں وزیر مملکت کا درجہ رکھنے والے ایک مقامی مسلم لیڈر کے علاوہ ایک سابق مسلم ایم ایل سی بھی اسٹیج پر نظر نہیں آئے۔ ان کو اسٹیج کے پیچھے خالی میدان میں جگہ ملی۔ حال ہی میں مظفر نگر کی ریلی میں مسلم چہروں کو اسٹیج پر جگہ دینے پر گزشتہ دنوں سماجوادی پارٹی کے دفتر میں بھی پارٹی لیڈروں اور کارکنان میں جوتم پیزار ہو چکی ہے اور یہ سب نظارہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو چکاہے۔
ایک طرف سماجوادی پارٹی پر مسلم نوازی سے بچنے کے الزامات ہیں تو دوسری جانب پارٹی پر جناح کا نام لے کر مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔ دونوں الزامات متضاد ہوتے ہوئے بھی سماجوادی پارٹی کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اکھلیش یادو کی اس شعوری یا لاشعوری غلطی کی وجہ سے غیر بی جے پی پارٹیا ں بھی سماجوادی پر حملہ بول رہی ہیں تاکہ ان پارٹیوں کے راشٹر واد پر کوئی انگلی نہ اٹھے۔ ایسے میں تو بی جے پی کی لاٹری کھل گئی۔ وہ کیوں اس موقع کو ہاتھ سے جا نے دے گی۔ اس نے اسی لیے جناح کے جن کو سماجوادی پارٹی کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے سماجوادی پارٹی دفاعی پوزیشن میں دکھائی دے رہی ہے اور یو گی سرکار کی غلطیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں پر اٹھنے والی آوازیں اکھلیش یادو کے اس متنازع بیان کے شور میں جیسے دب گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی اور اکھلیش یادو اپنی خود کی لائی اس مصیبت سے کیسے چھٹکارہ پاتے ہیں اور جناح کے جن کے سائے سے نجات پانے کا کیا علاج کرتے ہیں جبکہ علاج کا وقت بہت کم ہے ۔
[email protected]