جشن ریختہ و ساحر نے اردو کی گونج کا حلقہ وسیع کیا ہے: عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

اردو کی اشاعتی اور برقی میڈیا میں گزشتہ دنوں دہلی میں منعقدہ جشن ریختہ اور کولکاتہ میں جشن ساحر پر راست اور بالواسطہ اعتراضات کی جھڑی سی لگ گئی ہے۔ کچھ لوگ یکطرفہ بھڑاس نکال رہے ہیں، کچھ تکنیکی اعتراض تک محدود ہیں اور کچھ لوگوں نے مشاورتی انداز اپنا رکھا ہے۔ ان تمام ردّ ہائے عمل سے گزرنے والے بھی اپنا ایک الگ موقف رکھتے ہیں جو ہماری اور آپ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔
ان میں ایک ہمارے اطہر فاروقی صاحب کا موقف یہ ہے کہ اردو کا مستقبل صرف اس کی تعلیم سے وابستہ ہے۔ کسی صوبائی اردو اکیڈمی کا مین ڈیٹ اردو کی تعلیم نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے!اور کیا اردو والوں کو یہ بنیادی بات معلوم ہے!! اور اگر معلوم ہے تو انہوں نے اس کے لیے اب تک کیا کیا؟اسی میں ہی سوال کا جواب مضمر ہے۔
کم الفاظ میں فاروقی صاحب وہ تمام باتیں کہہ گئے جن پر دن بھر کا ڈسکورس رکھا جا سکتا ہے۔ میرا ناقص خیال یہ ہے کہ اردو اکیڈمیاں اپنی آئندہ کی تقریباتی سرگرمیوں کی فہرست میں اطہر صاحب کے اس موقف کو بھی شامل کر لیں اور اظہارِ خیال کا زیادہ موقع نئی نسل کی(حقیقی معنوں میں) پڑھی لکھی نسل کو دیں تو عجب نہیں کہ کوئی قابل عمل صورت نکل آئے۔
بصورت دیگر سب اپنی تجاویز برائے تائید و اعتراض پیش کرتے رہیں گے اور برقی میڈیا میں24گھنٹوں میں ان پر کمنٹس کی میعاد بھی ختم ہوتی رہے گی۔ اس کی عصری وجہ یہ ہے کہ زمانے کی رفتار نے تبدیلیوں کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ اب لوگ زیادہ دنوں تک کسی ایک موضوع سے الجھے رہنے کے قائل نہیں رہ گئے۔
زبانوں کے بننے بگڑنے کے جو تاریخی اسباب و علل کا ابھی ہم کل تک مطالعہ کرتے آئے ہیں، ان کا اب کسی زبان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ اب زبانیں رسم الخط کی ویسی محتاج نہیں رہیں جیسی پہلے ہوا کرتی تھیں۔ پہلے کوئی خال خال کسی غیر رومن زبان میں اظہار کیلئے رومن اسکرپٹ اختیار کرتا تھا، اب تو یہ کام دھڑلے سے تقریباً ہر گھر میں غیر محسوس طریقے سے ہو رہا ہے۔
اس سچ کا اعتراف کرنے میں جس ہمت کی ضرورت ہے بس وہ ابھی عام نہیں ہوئی ہے۔ ورنہ رومن میں اردو وہندی لکھنے کا سلسلہ تقریباً ہر حلقے میں جاری ہے۔ اس تبدیلی کا ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ سلسلہ اتنا نیا بھی نہیں کہ پڑھنے و سننے والے چونک اٹھیں۔ یہ سلسلہ چھ سات دہائیوں سے کسی اعلان کے بغیر جاری ہے۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ کل تک جو چیزیں محدود ڈومین میں تھیں، اب عام ہو گئی ہیں۔
رومن میں اردو لکھنے والوں میں مشہور اداکارہ شبانہ اعظمی بھی شامل ہیں جن کے نہ تو خاوند جاوید اختر کسی تعارف کے محتاج ہیں اور نہ والد ماجد کیفی اعظمی، جنہیں بس اردو ہی آتی تھی۔ اس محدودیت کی وجہ سے انہیں شبانہ اعظمی کے انگلش میڈیم اسکول میں داخلے میں دشواری پیش آئی۔ پتہ چلا کہ کوئن میری اسکول میں صرف انہی بچوں کو داخل کیا جاتا ہے جن کے ماں باپ دونوں کو انگریزی آتی ہو۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ کیفی اعظمی کے قریبی دوست اور ان کی بیوی شبانہ کے ماں باپ بن کر اسکول پہنچے اور اس طرح شبانہ اعظمی کا داخلہ کوئن میری اسکول میں ممکن ہو سکا۔
مجھے اپنا زمانہ بھی اچھی طرح یاد ہے۔ کلکتے میں آٹھویں دہائی میں جب میں محمد جان ہائیر سیکنڈری اسکول کا طالب علم تھا، اس وقت مغربی بنگال میں ملّی گھرانے صرف بنگالی اور اردو بولنے والوں پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ بنگالی زبان والے بنگال کے اوریجنل باشی تھے جبکہ اردو بولنے والے زیادہ تر بہار اور مشرقی اتر پردیش کے ان مہاجروں پر مشتمل تھے جو روزگار کیلئے بنگال آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ہندی لکھنے پڑھنے والے گھرانے بس خال خال نظر آتے تھے۔ وہ زمانہ بظاہر لسانی عصبیت سے بہت حد تک پاک تھا، پھر بھی غیر ہندی علاقوں خصوصاً جنوب میں ہندی کے تسلط کی زبانی اور عملی دونوں طور پر مخالفت ہوتی تھی۔ حکومت ہند کو اس کا عملاً ادراک کرنے میں سابق مشرقی پاکستان کے انجام سے کافی مدد ملی۔ اس طرح حکومتِ ہند نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے غیر ہندی علاقوں میں ’’ہندی پندرہ واڑہ‘‘ تک اپنی سرگرمیاں محدود کرلی تھیں۔ یہ فیصلہ بہ انداز دیگر موثر ثابت ہوا۔ ورنہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب جنوبی ہند میں صرف ہندی جاننے والے کا گزارا مشکل ہوا کرتا تھا۔
زبانوں کے بننے بگڑنے، پھیلنے اور سمٹنے کا یہ روایتی سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ معاشرے میں صنعتی انقلاب کی کوکھ سے تکنیکی پھر اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلابات نے جنم لے کر فکر و نظر کی دنیا میں زبردست انقلاب برپا کر دیا۔ اس انقلاب نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ شروع میں اس تبدیلی کی تاب لانے میں ورناکلر زبانوں کو زبردست پاپڑ بیلنے پڑے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں جن زبانوں کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی، انہیں تو نئی تبدیلی سے جلد ہم آہنگ کر دیا گیا۔ جبکہ سرکاری سرپرستی سے محروم زبانوں کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں ہندی کو جو سرکاری سرپرستی حاصل تھی، وہ اردو کو کبھی نہیں مل پائی۔ لسانی ریاستیں اپنی اپنی زبانوں کو سنبھالا دینے میں تو کامیاب رہیں، لیکن اردو تقریباً دو دہائی تک تکنیکی سفر کیلئے بس منھ تکتی رہی۔ پھر ہمسایہ پاکستان میں آنے والا ’’ان پیج انقلاب‘‘ اسمگل ہو کر ہندوستان پہنچا۔ اس کی یہاں نقل در نقل کاپیاں تیار ہوئیں جو تیزی سے غیر ہندی ریاستوں میں پھیل گئیں جہاں تقسیم ہند کی مار جھیلنے والی اردو زندہ بچ گئی تھی۔ مغربی بنگال، موجودہ تلنگانہ، کرناٹک اور جموں و کشمیر میں اردو جہاں اسکولوں اور گھروں میں پنپی، وہیں مہاراشٹر میں اردو ان دونوں پناہ گاہوں میں پنپنے کے علاوہ بالی ووڈ پر بھی دہائیوں بلا شرکت غیرے راج کرتی رہی۔
اِن پیج کی در اندازی تک تو معاملہ باعث برکت رہا، لیکن1971کے بعد باقیماندہ پاکستان نے دوقومی نظریے سے تائب ہونے کے بجائے جب نفرت ایکسپورٹ کرنے کا کاروبار شروع کر دیا تو ہندوستان میں اردو جو عملاً تقسیمِ ہند کے ساتھ ہی مسلمانوں کی زبان بن گئی تھی، اس کا ہر اس جگہ سے صفایا شروع کر دیا گیا جو قومی پہچان کا حصہ ہو۔ بالی ووڈ بھی بلا شبہ انہی میں سے ایک تھا۔
اس پس منظر میں سرگرمِ عمل اردو اکیڈمیاں، مجالس اور ادارے اردو مخالفین کی نظر میں چڑھے بغیر اردو کی جو خدمت کرتے آئے ہیں وہ صد لائقِ رشک ہیں۔ ان اداروں کے ذمہ داران سے سیاسی اختلاف تو ہو سکتا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ان اداروں کو نقصان پہنچانے کی حد تک مخالفت سے ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ ناچیز کا خیال ہے کہ سر دست یہ مان کر زبان کے حق میں اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کیا جائے کہ جشنِ ریختہ اور جشنِ ساحر نے بلاشبہ اردو کی گونج کا حلقہ وسیع کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ذرائع ابلاغ کی طرف سے مصدقہ اس سچ کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی دستیابی میں سبقت کے لحاظ سے ہندوستان کی تسلیم شدہ زبانوں میں اردو سر فہرست ہے۔ اردو میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 1.91لاکھ ہے۔ اس کے بعد بالترتیب ہندی(1.57 لاکھ)، تمل(1.54لاکھ) اور بنگالی(1.4لاکھ) کے نمبر آتے ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS