سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
جموں کشمیر پولس نے اپنی نوعیت کے ایک واقعہ میں وادی کی واحد پیشہ ورانہ فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے کچھ ’’فیس بُک‘‘ پوسٹس کی بنیاد پر انکے خلاف سخت ترین قانون ’’غیر قانونی سرگرمی (پروینشن) ایکٹ‘‘ کے تحت معاملہ درج کر لیا ہے۔ مسرت کو تاہم ابھی تک باضابطہ گرفتار نہیں کیا گیا ہے البتہ انکے خلاف درج کردہ ایف آئی آر میں شامل دفعات کے تحت کئی سالوں تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
ایک پیشہ ورانہ خاتون صحافی کے خلاف اس حد تک سٹیٹ کے رویہ پر کئی لوگ ششدر ہیں جبکہ کشمیر پریس کلب نے اسکی شدید الفاظ میں مذإت کرتے ہوئے پولس کو سائیبر کرائم اور جرنلزم میں فرق سمجھنے کی نصیحت دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے۔
سرینگر میں پولس کی سائیبر سیل کے سپرانٹنڈنٹ آف پولس (ایس پی) طاہر اشرف نے ایک خبر رساں ایجنسی کو کہا’’ہاں، انہیں جنگجوؤں کی تعریفیں (گلوریفائی) کرنے والی انکی فیس بک پوسٹس کیلئے بُک کیا گیا ہے‘‘۔
ایک بیان میں پولس نے کہا ’’ سائیبر پولس تھانہ کو معتبر ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ مسرت زہرا نام کا فیس بُک اکاونٹ نوجوانوں کو اُکسانے اور امن بگاڑنے کیلئے مجرمانہ نیت سے ملک دشمن پوسٹ اپلوڈ کرتا ہے۔ اس اکاونٹ سے ایسی تصاویر بھی اپلوڈ ہورہی ہیں کہ جو لوگوں کو مشتعل کرسکتی ہیں اور جن سے بد امنی پھیل سکتی ہے۔اس اکانونٹ سے جنگجوؤں کی تعریفیں کرنے والی ایسی ملک دشمن پوسٹس اپلوڈ کی جارہی ہیں کہ جو قانو نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی شبیہ خراب کرتی ہیں اور ملک کے تئیں بد اعتمادی پیدا کرتی ہیں‘‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ مسرت کے خلاف 18اپریل کو سائیبر پولس تھانہ کشمیر زون میں ایف آئی آر، نمبر 10/2020 تحت دفعہ یو اے (پی) اور 505 انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی)، درج کی گئی ہے اور تحقیقات جاری ہے۔
مسرت زہرا نے فون پر بتایا کہ انہیں 18اپریل کی رات کو پولس نے سائیبر پولس تھانہ آنے کی ہدایت دی تھی تاہم تالہ بندی کی وجہ سے،جبکہ انکے پاس کرفیو پاس بھی نہیں ہے،وہ نہ گئیں۔ انکا کہنا ہے کہ انہوں نے تاہم بعض سینئر صحافیوں اور کے پی سی کے عہدیداروں سے مدد مانگی جنہوں نے اسی رات انہیں واپس فون کرکے بتایا تھا کہ اعلیٰ پولس افسروں نے معاملہ رفع دفع کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں بے فکر ہوگئی تھی یہاں تک کہ آج سوشل میڈیا کے ذرئعہ پتہ چلا کہ میرے خلاف سنگین دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے‘‘۔
مسرت کے خلاف اتنی سخت کارروائی کئے جانے کو لیکر سوشل میڈیا پر احتجاج ہوتے دیکھا جاسکتا ہے اور لوگ انکے خلاف درج مقدمہ کو واپس لئے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔کے پی ایس نے ایک بیان میں پولس کارروائی کی مذمت کی اور ساتھ ہی کئی واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری صحافیوں کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔بیان میں بعض تازہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کس طرح سرکردہ انگریزی اخبار کے نامہ نگار پیرزادہ عاشق کو ایک خبر کیلئے حراساں کیا گیا اور دیگر کئی صحافیوں کو گرفتار کیا گیا یا پھر انکی مار پیٹ کی گئی۔کلب نے وزیر داخلہ امت شاہ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری صحافیوں کو درپیش حالات کے بارے میں پریس کونسل آف انڈٰیا لکھا جائے گا کہ جموں کشمیر میں سکیورٹی ایجنسیوں کو یہ سمجھائے جانے کی ضرورت ہے کہ سائیبر کرائم اور جرنلزم میں فرق ہے۔
مسرت زہرا غالباََ پہلی کشمیری لڑکی ہیں جنہوں نے تصویری صحافت کو بطورِ پیشہ کے اپنایا ہے اور اپنے کیرئر کے چار سال میں انکا کام دلی سے واشنگٹن اور عرب دُنیا کی معتبر اشاعتوں،جن میں وشنگٹن پوسٹ،الجزیرہ، ٹی آر ٹی اور کاراوان وغیرہ شامل ہیں، تک میں جگہ پاچکا ہے۔ وہ زیادہ تر خواتین اور بچوں کے موضوع کو محور بنائے ہوئے ہیں البتہ بعض اوقات عام حالات کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسرت نے حال ہی جنوبی کشمیر میں پُرتشدد واقعات کے دوران مارے گئے بعض لوگوں سے متعلق مفصل تصویری کہانی (فوٹو اسٹوری) بنائی تھی جو کئی اہم اشاعتوں میں شائع ہوکر کشمیر کی صورتحال کی جانب توجہ مبذول کراچکی ہے،غالباََ انکا یہی کام تادیبی کارروائی کا باعث بن گیا ہے۔
جموں کشمیر کی پہلی اور واحد خاتون فوٹو جرنلسٹ پر ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام میں مقدمہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS