کیا عبداللہ پدر پسر نئی دہلی کے ساتھ نئے رشتوں پر آمادہ ہیں،کیا نیشنل کانفرنس ٹوٹنے کو تیار ہے؟

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    گذشتہ سال دفعہ  370 کے کالعدم قرار دئے جانے کے بعد سے جموں کشمیر کی قدیم اور وسیع ترین پارٹی نیشنل کانفرنس دلی کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے شدید ابہام کی شکار ہے۔ پارٹی کے اندر شدید اختلافِ رائے ہے یہاں تک کہ مبصرین اسکے بکھرنے تک کی قیاس آرائیاں کررہے ہیں۔پارٹی میں اختلافِ رائے کا تازہ مظاہرہ آج اُسوقت ہوا کہ جب ایک جانب پارٹی صدر فاروق عبداللہ سمیت تینوں ممبرانِ پارلیمنٹ سابق ریاست کے حلقہ ہائے اسمبلی کی سرحدوں کے مجوزہ از سرِ نو تعین کو لیکر فیصلہ نہیں لے پارہے تھے کہ پارٹی ترجمان آغا روح اللہ نے مرکزی سرکار کی مجوزہ اس سرگرمی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔
    مرکزی سرکار جموں کشمیر میں اسمبلی کے حلقہ ہا کی سرِ نو حد بندی کے متنازعہ و مشکوک منصوبہ کو عملانے کی جلدی میں ہے جسکے لئے ایک کمیشن کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے نیشنل کانفرنس کے صدر سمیت پارٹی کے تینوں ممبرانِ پارلیمنٹ کو ممبر نامزد کیا ہے۔ فاروق عبداللہ اور انکے دونوں ساتھیوں،حسنین مسعودی اور اکبر لون،نے کہا ہے کہ پارٹی نے ابھی کوئی حتمی فیصؒہ نہیں لیا ہے تاہم سرینگر میں پارٹی کے ترجمانِ اعلیٰ آغا روح اللہ نے وضاحتاََ اعلان کیا کہ پارٹی اس سرگرمی میں شریک نہیں ہوگی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مرکزی سرکار سابق ریاست کے 87 حلقہ ہائے اسمبلی کی از سرِ نو حدبندی کرنے جارہی ہے اور مبصرین کا ماننا ہے کہ ایسا سابق ریاست کے ’’پاور سینٹر‘‘ کو وادیٔ کشمیر سے جموں منتقل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔کشمیری سیاستدان اس سرگرمی کے مخالف رہے ہیں یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس اس سلسلے میں سپریم کورٹ تک سے رجوع کرچکی ہے۔پھر یہ سرگرمی ایسے میں ہورہی ہے کہ جب نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی ساگر اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی لگاتار پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند اور نیشنل کانفرنس کے کئی لیڈر اپنے گھروں کی چہار دیواری میں قید ہیں۔ 
    نیشنل کانفرنس کے ممبرانِ پارلیمنٹ حسنین مسعودی اور اکبر لون نے فون پر بتایا کہ قانون کے مطابق اسمبلی یا پارلیمنٹ کے حلقہ جات کی نئی حدبندی کی سرگرمی میں متعلقہ ممبرانِ پارلیمنٹ کو شامل کرنا لازمی ہے اور اسی وجہ سے لوک سبھا نے انہیں کمیشن میں شامل کیا ہے تاہم پارٹی نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے رات تک باضابطہ بیان دیا جائے گا تاہم پارٹی ترجمان آغا روح اللہ،جو دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد سے ہی نظربند ہیں، نے ایک ٹویٹ میں مختصراََ کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس حد بندی کی سرگرمی میں شریک نہیں ہوگی۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ’’نیشنل کانفرنس حد بندی کی سرگرمی میں شریک نہیں ہوگی‘‘۔
    آغا روح اللہ اور نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کے دستِ راست تنویز صادق کے بیچ سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں نوک جھونک ہوتے دیکھی گئی۔تنویر صادق نے ایک مقامی روزنامہ میں مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے دفعہ 370 کی تنسیخ کے بارے میں براہِ راست کوئی بات کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے نئی دلی کے ساتھ نئے روابط بنانے کی تجویز دی تھی۔ انکا یہ مضمون ایسے میں سامنے آیا ہے کہ جب چند ماہ قبل بی جے پی کی حمایت سے بنائی گئی الطاف بخاری کی ’’اپنی پارٹی‘‘ کو سابق ریاست کی حکومت سونپ دئے جانے کی تجاویز گشت میں ہیں اور عمر عبداللہ اچانک دلی روانہ ہوچکے ہیں۔ تنویر صادق کے مضمون کا شدید ردعمل دکھاتے ہوئے آغا روح اللہ نے ان پر زبردست اعتراض جتایا ہے اور کہا ہے کہ انکے خیالات انکے ’’ذاتی‘‘ تو ہوسکتے ہیں لیکن پارٹی کی ترجمانی نہیں کرسکتے۔ دونوں کے بیچ اس حد تک نوک جھونک ہوئی کہ عمر عبداللہ کو ٹویٹر پر یہ بیان دینا پڑا کہ وہ کسی سیاسی دورے پر نہیں بلکہ نجی دورے پر دلی میں ہیں ۔انہوں نے آغا روح اللہ اور تنویر صادق کو اپنے دوست اور ساتھی بتاتے ہوئے ان دونوں کو عوام کے سامنے چیزوں کو زیرِ بحث لانے سے پرہیز کرنے کی صلاح دی۔
    مبصرین کا ماننا ہے کہ دہائیوں تک دفعہ 370  کو مقدس کتاب مان کر چلتی رہی اور اسے اپنی ساری سیاست کا محور بناکر سیاست کرتی رہی نیشنل کانفرنس میں کچھ لوگ جیسے تیسے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ سب کچھ بھلا کر مرکزی سرکار کے ساتھ نئے رشتے بنانے کے موڈ میں ہیں لیکن آغا روح اللہ جیسے کئی لیڈران اس بات کے سخت مخالف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ روح اللہ کی ہی طرح نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی ساگر بھی ،جو  5اگست  2019 سے لگاتار نظربندی کاٹ رہے ہیں،نئی دلی کے تئیں شدید خیالات رکھتے ہیں اور موجودہ مرکزی سرکار کے ساتھ کسی بھی قسم کی مصروفیت کے مخالف ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ باپ بیٹے نئی دلی کے ساتھ معاملہ کرنے کیلئے بہانے تلاش کررہے ہیں اور اس بات کو لیکر پارٹی میں زبردست اختلافِ رائے ہے۔
    پارٹی میں درمیانہ درجہ کے ایک لیڈڑ نے،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ’’ابھی کچھ واضح تو نہیں ہے لیکن تنویر صادق چونکہ عمر صاحب کے انتہائی قریب ہیں وہ عمر صاحب سے پوچھے بغیر بے جھجک وہ سب نہیں لکھ سکتے ہیں کہ جو ہم نے اخبار میں پڑھا ہے۔ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ عمر صاحب نئی دلی کے ساتھ موجودہ حالات میں کوئی معاملہ کرسکتے ہیں لیکن تنویر کے مضمون اور اس پر عمر عبداللہ کی خاموشی نے معاملہ ہمارے لئے بھی نا قابلِ فہم بنادیا ہے‘‘۔نیشنل کانفرنس کے ہی ایک اور لیڈڑ نے بتایا’’پارٹی میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ دفعہ  370کو ہٹالئے جانے کے بعد سے تو ویسے میں جموں کشمیر میں مین اسٹریم کی سیاست ختم ہوچکی ہے لیکن اگر نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی نے موجودہ حالات میں نئی دلی کے ساتھ معاملہ کیا تو ہم پر غداری کا بڑا الزام لگ سکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو بہت بڑی سطح پر نہ سہی لیکن ہاں کسی حد تک پارٹی میں اختلافِ رائے کھل کر سامنے آسکتا ہے‘‘۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS