اگست 5 کے جشن کی تیاریاں،’’حصولیابیوں‘‘ کی فہرست مرتب ،بڑے پیمانے پر تشہیر کا پروگرام

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    گذشتہ سال 5 اگست کو جموں کشمیر کا نقشہ بدل دئے جانے کی نئی دہلی کی مہم جوئی کا ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔جموں کشمیر،باالخصوص وادی،میں بے چینی کی لہر تازہ ہوتے محسوس ہو رہی ہے لیکن لیفٹننٹ گورنر جی سی مرمو کی قیادت والی یونین ٹریٹری انتظامیہ جشن کی تیاریاں کر رہی ہے۔ انتظامیہ گذشتہ سال کے واقعہ کی  پہلی سالگرہ پر خود  5اگست سے سلسلہ وار پروگرام شروع کرنے جارہی ہے کہ جن میں گذرے  12 مہینوں کی حصولیابیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔
    چیف سکریٹری کی جانب سے جاری ہوئے ایک حکمنامہ میں سرکار کے سبھی انتظامی سکریٹریز کو  8سے  11 اگست تک حاضر رہنے کیلئے کہا گیا ہے کیونکہ ’’ایک اہم تقریب کا انعقاد ہونے والا ہے‘‘۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس تقریب کیلئے جموں کشمیر سے باہر کے نامہ نگاروں کو بلائے جانے کا پروگرام ہے اور انہیں جانکاری دینے اور انہیں ’’سنبھالنے کیلئے‘‘ کم از کم چار آئی اے ایس افسروں کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جبکہ سینئر آئی اے ایس اور جموں کشمیر سرکار کے ترجمان روہت کنسل کو نوڈل افسر مقرر کیا گیا ہے۔ 
    واضح رہے کہ مرکزی سرکار نے گذشتہ سال  5 اگست کو جموں کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے یہاں کی خصوصی حیثیت کی ضامن آئینِ ہند کی دفعہ 370 اور  35-A کو ختم کرنے کے علاوہ اس منفرد ریاست کو دو مرکزی زیرِ انتظام علاقوں (یونین ٹریٹریز) میں تقسیم کردیا تھا۔ یہ غیر متوقع اقدام کرتے وقت جہاں عام لوگوں کو مہینوں اپنے گھروں کی چار دیواری تک محدود رکھا گیا تھا وہیں علیٰحدگی پسند کارکنوں اور قائدین کے علاوہ تین سابق وزرائے اعلیٰ- فاروق عبداللہ،عمر عبداللہ،محبوبہ مفتی-سمیت مین اسٹریم کے درجنوں لیڈروں اور کارکنوں کو بھی گرفتار کرکے خصوصی جیلوں یا انکے گھروں میں نظربند کردیا گیا تھا۔ تینوں وزرائے اعلیٰ سمیت مین اسٹریم کے کئی لیڈروں پر بعدازاں بدنامِ زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) لگا دیا گیا تھا جسکے تحت وہ مہینوں نظربند رہے۔
    گو کہ گذرے بارہ مہینوں میں عام لوگوں کی نظروں سے ایسا کچھ نہیں گذرا ہے کہ جسے ’’انقلابی تبدیلی‘‘ بتاکر عوام کے سامنے گذشتہ سال کی مہم جوئی کے ’’جواز‘‘ کے بطور پیش کیا جاسکتا تھا تاہم ،ذرائع کے مطابق، سرکار نے اپنی ’’حصولیابیوں‘‘ کی لمبی فہرست تیار کی ہوئی ہے جسکی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جانے والی ہے۔ان ذرائع کے مطابق سرکار نے حصولیابیوں کی جو فہرست تیار کی ہے اس میں وزیرِ اعظم نریندرا مودی کی جانب سے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں جموں کشمیر کیلئے اعلان کردہ 80,000 کروڑ روپے کے پیکیج کے تحت کئے گئے خرچہ سے لیکر جموں کشمیر میں کرفیو اور بند کے دوران میوہ کاشتکاروں سے ’’مارکیٹ انٹرونشن اسکیم‘‘ کے تحت میوہ خریدنے تک کے سبھی اقدامات شامل ہیں۔یاد رہے کہ جب جموں کشمیر میں کہیں کرفیو اور کہیں احتجاجی بند تھا تو سرکار نے مذکورہ اسکیم کے تحت کاشتکاروں سے میوہ خرید کر انہیں راحت پہنچانے کی کوشش کی تھی تاہم نہایت کم نرخ مقرر کئے جانے کی وجہ سے یہ اسکیم بیشتر کاشتکاروں کو ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔
    حالانکہ گئے سال میں روزگار کی فراہمی کیلئے کوئی خصوصی مہم نہیں چلائی جاسکی ہے تاہم ذرائع کے مطابق سرکار کی حصولیابیوں کی فہرست میں سرکاری نوکریوں کیلئے زبانی انٹرویو کی جگہ تحریری امتحان کو لازمی قرار دینا بھی شامل ہے۔ سرکاری انتظامیہ  5اگست سے قبل پورے جموں کشمیر میں ٹیلی فون اور مواصلات کے دیگر سبھی ذڑائعہ کو بند کردئے جانے کے کئی ماہ بعد جزوی طور اور مرحلہ وار بنیادوں پر ٹیلی فون کی سروس بحال کرنے کو بھی اپنی ایک اہم کامیابی کے بطور پیش کرنے والی ہے۔اسکے علاوہ بلاک ڈیولوپمنٹ کمیٹیوں کے انتخابات،جموں کشمیر میں سبھی مرکزی قوانین کے نفاذ،ڈوماسائل اسناد کی اجرائیگی اور اس طرح کی چیزیں شامل ہیں حالانکہ یہ سبھی چیزیں کسی نہ کسی وجہ سے متنازعہ ہیں اور عام لوگوں کو رجھانے کی بجائے انکی بے چین کئے ہوئے ہیں۔
    معلوم ہوا ہے کہ سرکار نے خصوصی تقاریب کے دوران بانٹی جانے والی فہرستوں میں خصوصی طور مختلف سیاستدانوں کے رہا کئے جانے کی تاریخیں درج کی ہیں۔ ان تفصیلات کے ذرئعہ جموں کشمیر میں ’’نارملسی‘‘ کی بحالی کیلئے گذشتہ سال ستمبر سے ہی اقدامات کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ ایسی ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ نیشنل کانفرنس کے لیڈر سید محمد آخون کو اگست میں نظربند کرنے کے ماہ بھر بعد ہی 19 ستمبر کو رہا کیا گیا تھا اور پھر  10اکتوبر کو پی ڈی پی کے نور شیخ اور پیوپلز کانفرنس کے عمران انصاری سمیت کئی دیگراں کو رہا کیا گیا اور یہ سلسلہ گذشتہ ماہ تب تک جاری رہا کہ جب تک نہ (مین اسٹریم کے) سبھی سیاستدانوں کو رہا کیا گیا۔
    دلچسپ ہے کہ سرکاری انتظامیہ کی دعویداری کے برعکس کئی چھوٹے بڑے سیاستدانوں کا الزام ہے کہ باضابطہ قید و بند کے بعد اب انہیں اپنے گھروں میں نظربند کئے رکھا گیا ہے۔سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی اعلانیہ طور گھر میں نظربند ہیں جبکہ سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کے ’’آزاد‘‘ ہونے کے سرکاری دعویٰ کے برعکس انکی نقل و حمل سرینگر ائرپورٹ کے قریب اپنے وسیع بنگلے کی چار دیواری کے اندر اندر محدود ہے۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS