جموں کشمیر: توہین رسالت کے مقدمے میں ایک اور شخص گرفتار، تعداد چار ہوگئی

    0

    جموں و کشمیر پولیس نے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز باتیں کرنے کے معاملے میں ایک اور شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس کے ساتھ گرفتار شدگان کی تعداد بڑھ کر چار ہوگئی ہے۔
    جموں کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شری دھر پٹیل نے بتایا کہ پولیس تھانہ پکا ڈنگا جموں میں درج ایف آئی آر نمبر 100 آف 2020 میں ملوث چوتھے شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
    انہوں نے کہا کہ معاملے کی سرعت سے تحقیقات جاری ہے۔
    ایس ایس پی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے مواد کو شیئر نہ کریں جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
    جموں زون پولیس کے انسپکٹر جنرل مکیش سنگھ کے مطابق معاملے میں جن تین افراد کو پہلے ہی گرفتار کیا گیا ہے ان میں توہین آمیز بیان دینے والے شخص ستپال شرما اور ان کے دو ساتھی دیپک اور روہت شرما شامل ہیں۔
    بتادیں کہ اتوار کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ستپال شرما نامی شخص، جو بھارت رکشا منچ نامی تنظیم کے جنرل سکریٹری ہیں، کو پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز باتیں کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
    مذکورہ شخص نے یہ باتیں ایک نیوز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہی تھیں اور اس نیوز پورٹل نے یہ توہین آمیز مواد مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کیا تھا۔
    پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر لیڈر ایڈوکیٹ فردوس احمد ٹاک نے توہین رسالت کے معاملے میں درج مقدمے کو قانونی اعتبار سے ناقص قرار دیا ہے۔
    فردوس ٹاک نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: 'توہین رسالت کے معاملے میں پولیس تھانہ پکا ڈنگا میں درج ایف آئی آر قانونی اعتبار سے ناقص ہے۔ تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے کے تحت مقدمہ صرف ضلع مجسٹریٹ کی شکایت پر درج کیا جاتا ہے۔ بصورت دیگر یہ مقدمہ منسوخ ہوجائے گا۔ مکیش سنگھ کی فوری کارروائی قابل سراہنا ہے لیکن یہ سنگھی کھیل کون کھیل رہا ہے؟'
    فردوس ٹاک نے یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: 'پروسیجر کے مطابق جب بھی دفعہ 153 اے کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے اس کے لئے ضلع مجسٹریٹ کو شکایت درج کرنی ہوتی ہے۔ ان کی شکایت پر ہی اس دفعہ کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے'۔
    انہوں نے کہا تھا: 'ہمیں تشویش ہے کہ یہ ایک سنگین غلطی ہے یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ میں نے ایف آئی آر کی کاپی دیکھی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ پولیس کو معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔ یہ مقدمہ پولیس کے اپنے ذرائع کی اطلاع پر نہیں بلکہ ضلع مجسٹریٹ کی شکایت پر درج ہونا چاہیے تھا۔ ایف آئی آر میں دوسری دفعہ 295 اے لگائی گئی ہے وہ برادریوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے سے متعلق ہے'۔
    یو این آئی اردو کو معاملے میں درج مقدمے کی کاپی بھی دستیاب ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے: 'معتبر ذرائع سے تھانہ ھٰذا کو اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ایک شخص جس کا نام ستپال شرما ولد پریم ناتھ شرما ساکنہ میاں باغ ادھم پور ہے نے 15 اگست کو بمقام امپھلا میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کر کے غلط الفاظ استعمال کرتے ہوئے اسلام کے پیروکاروں کے دلوں کو ٹھیس پہنچانے کی غرض سے اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے ہیں'۔
    اس میں مزید کہا گیا ہے: 'ان الفاظ سے فرقہ وارانہ فسادات ہونے کا اندیشہ لاحق ہے۔ مذکورہ شخص نے جرم زیر دفعات 295 اے اور 153 اے آئی پی سی کا ارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا پولیس تھانہ ھٰذا میں پرچہ زیر نمبر 100 آف 2020 درج کی جا رہی ہے'۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS