جموں و کشمیر کے رستے زخموں پر مرہم کی ضرورت: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

اس کو بدقسمتی ہی کہیں گے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ارض جنت نشاں کشمیر دو متضاد تصویروں سے کبھی باہر نہیں آسکا ہے۔ ایک طرف اس کی خوبصورت وادیاں، اونچے ہمالیائی پہاڑوں کا سلسلہ اور صاف شفاف پانی کے ابلتے چشموں اور بل کھاتے و اتراتے آبشاروں اور کہساروں کا حسین منظر ہے جن کی دلکشی ایسی رہی ہے کہ جب شمالی ہندوستان کے لیڈران بھی دھول اور گرمی کی زد میں پڑ کر بیمار ہوجاتے تھے تو وہ وادیٔ کشمیر کا رخ کرتے تھے تاکہ بیمار جسم کو صحت، تھکی نگاہوں کو راحت اور پژمردہ جذبات کو تازگی نصیب ہوسکے۔ اس کا ذکر دیگر مجاہدین آزادی کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی سرگزشت میں بطور خاص کیا ہے۔ کسی نہ کسی حد تک آج بھی کشمیر کی یہ ظاہری خوبیاں اور رعنائیاں باقی ہیں لیکن اس کی روح بری طرح زخمی اور سوگوار ہے۔ اس کی زخمی روح کو جن اسباب کی وجہ سے شب و روز دکھ کے تازیانے جھیلنے پڑتے ہیں، ان کی نوعیت سماجی سے زیادہ سیاسی ہے اور یہی پہلو اس کی متضاد تصویر کا دوسرا پہلو ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت ٹریجڈی سے پر اس داستان عشق کی مانند ہے جس میں محبوبہ کا حسن ہی اس کے لیے سب سے بڑا وبال بن جاتا ہے۔ یہ وادی نہ صرف ہندوستان کے اندر سیاست دانوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہے بلکہ دو ملکوں اور سرحدوں کے درمیان رسہ کشی کی بھاری قیمت چکانے والی پابہ زنجیر قیدی بھی۔ اس کے خوبصورت وجود و جسم کو آزادی کے فوراً بعد ہی نوچا اور کھسوٹا گیا اور اس کی مرضی کے برعکس ہی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج بھی اس کو بولنے کی آزادی نہیں دی جاتی ہے۔ کوئی اس کو مذہب اور ثقافت کے نام پر تباہ کرتا ہے تو کوئی اسے جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کی وجہ سے ہتھیانا چاہتا ہے اور کوئی اس کو ہتھیار کے زورپر ہی حاصل کرنے میں یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک جموں و کشمیر کے عوام کا تعلق ہے تو اس کو آزادی سے بولنے کا حق کوئی دیتا ہی نہیں ہے۔ اس گھٹن کی وجہ سے جموں و کشمیر کا وہ حسن پیلا پڑ گیا ہے جو کبھی اس کی تازگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ سب نے صرف اس کا استعمال اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے کے لیے کیا۔ سب کا ایک خاص موقف ہوتا ہے جس کی روشنی میں اس مسئلہ کو دیکھا جاتا ہے۔ کسی میں اتنی فکری وسعت اور سیاسی ندرت نہیں پائی جاتی کہ وہ اس مسئلہ کو انسانی قدروں کی بنیاد پر حل کرے اور یہاں کے لوگوں کو زندگی کے پر لطف ایام عنایت کرنے میں اپنا کردار نبھائے۔ جب کانگریس پارٹی اور مقامی سیاسی جماعتوں کو اس خطہ پر حکومت کا موقع ملا، اس وقت بھی اس جنت نشاں قطعۂ ارضی کو سکون میسر نہ ہوسکا بلکہ صحیح معنی میں یہ کہا جائے کہ نوے کی دہائی میں مسلح جماعتوں کا ظہور اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی خوف و دہشت اور قتل و خون کی سیاست کا آغاز ہی کانگریس پارٹی کی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔ نوے کی دہائی کا یہ زخم ابھی تک بھر نہیں سکا ہے۔ اس کے برعکس اس کا زخم اب ناسور بن چکا ہے اور اس کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔ جموں و کشمیر کی بدحالی کی داستان سے بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اپنا دامن نہیں بچا سکتی کیونکہ مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مل کر حکومت سازی اس پارٹی نے بھی کی ہے بلکہ خود اپنی اتحادی محبوبہ مفتی کے زمانہ میں ہی جموں و کشمیر کو اس کے خصوصی حقوق و امتیازات سے محروم کرنے کی بساط بچھالی گئی تھی۔ ہر قسم کی پابندیاں عوام و خواص پر عائد کر دی گئی تھیں اور خود جموں و کشمیر کی حیثیت کو ہی پورے طور پر بدل دیا گیا تھا۔ یہ کام بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں و کشمیر کے عوام کو بہتر طرز زندگی عطا کرنے یا ان کے لیے خوشحالی کا دروازہ کھولنے کی غرض سے نہیں کیا تھا بلکہ اسی ہندوتو کی سیاست کے تحت کیا تھا جس کے مطابق ملک کی مسلم اقلیت کو اس کی اوقات میں رکھنا ضروری ہے۔ حالانکہ بھارتیہ جنتا پارٹی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس کے اس عمل سے جموں و کشمیر کو پورے طور پر ملک کے ساتھ انضمام و اتحاد میں مدد ملے گی اور ترقی کی راہیں وہاں کے عوام کے لیے کھلیں گی۔ ابھی دو ہفتے قبل کی بات ہے کہ جب سپریم کورٹ نے370کے معاملہ پر مرکزی حکومت کے اٹھائے گئے قدم کو درست قرار دیا تھا تو وزیراعظم نے فاتحانہ انداز میں یہ کہا تھا کہ یہ صرف ایک قانونی فیصلہ نہیں ہے بلکہ امید کی روشنی اور بہتر مستقبل کا غماز بھی ہے۔ لیکن چند ہی دنوں کے بعد جموں کے علاقہ میں جو دو واقعات رونما ہوئے ہیں، وہ ثابت کرتے ہیں کہ زمینی حقائق وزیراعظم کی باتوں سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ ایک طرف دہشت گرد یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا دبدبہ صرف وادیٔ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ جموں کے ان علاقوں میں بھی ہے جن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ گزشتہ پندرہ برسوں سے وہاں امن کا ماحول ہے۔ ڈیرہ کی گلی میں ہندوستانی جوانوں کی شہادت اور ان کا زخمی ہونا جس قدر تکلیف کی بات ہے، اسی قدر افسوسناک یہ پہلو بھی ہے کہ جوانوں پر دہشت گردانہ حملہ کے بعد آٹھ عام شہریوں کو پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا گیا جن میں سے تین کو مار ڈالا گیا اور باقی لوگ راجوری کے اسپتال میں زندگی اور موت کے دن گن رہے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ فوج کے جوانوں نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ پیشہ ورانہ انداز میں اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھائی جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے فوجی سربراہ نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس پہلو پر توجہ دیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس جرم کے لیے کون ذمہ دار ہے، ان کے بارے میں تحقیق جاری ہے اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے متاثرین کے افراد خاندان کو انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ اقتصادی ترقی، سیاسی استحکام اور سماجی امن و سکون کو پروان چڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کو بھی ایک نارمل ریاست کی طرح کام کرنے کی آزادی دی جائے۔ مقامی سیاست دانوں پر بھروسہ کیا جائے اور مرکز سے اس خطہ کو کنٹرول کرنے کی سیاست سے باز رکھا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے جج سنجے کشن کول نے370پر دیے گئے فیصلہ کے دوران اپنے تبصرہ میں جس مرہم کی طرف اشارہ کیا تھا، اس کا انتظام کیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی حقوق کی حفاظت کا مسئلہ صرف باتوں اور بیان بازیوں تک محدود نہ رہے بلکہ اس کو حقیقت کا جامہ پہنایا جائے تاکہ جموں و کشمیر کی زخمی روح کو سکون نصیب ہوسکے اور اس کا فطری حسن دوبارہ سے بحال ہوسکے۔ یہ تب تک ممکن نہیں ہوگا جب تک وہاں کے عام شہریوں کے ساتھ انسانی برتاؤ حق و انصاف کے دائرہ میں نہیں کیا جائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS