عبدالماجد نظامی: جمعیۃ علماء ہند نے ہندوستان میں اتحاد کا پرچم پھر لہرایا

0
عبدالماجد نظامی: جمعیۃ علماء ہند نے ہندوستان میں اتحاد کا پرچم پھر لہرایا

عبدالماجد نظامی

ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں مثالی کردار ادا کرنے والی جید علماء و دانشوران کی تنظیم جس کو ’جمعیۃ علماء ہند‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ اپنی104سالہ تاریخ میں یہ امتیازی وصف رکھتی ہے کہ اس نے اتحاد و یگانگت اور بقاء باہم کے اصولوں کو نہ صرف اپنے سینے سے لگائے رکھا بلکہ پوری شدت اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل پیرا بھی رہی ہے۔ اس تحریک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جناح کی قیادت والی ’مسلم لیگ‘ کے دو قومی نظریہ کو اسی ابتدائی وقت میں مسترد کر دیا تھا جب تقسیم ہند کی کونپلیں اگنے کے لیے ’لیگ‘ کے قائدین کے ذہن و دماغ میں ٹھیک سے اپنی زمین بھی ڈھونڈ نہیں پائی تھیں۔ ممتاز مجاہد آزادی اور شیخ الہند محمودالحسنؒ کے شاگرد اور آزادی ملک اور وحدتِ وطن کی راہ میں ہر قدم پر ساتھ رہنے والے شیخ الحدیث مولانا حسین مدنیؒ نے دو ٹوک انداز میں ’مسلم لیگ‘ کے دو قومی نظریہ کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ملک ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو وہاں بستا ہے۔ اس کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا غیر معقول بات ہے۔ اس فکر پر جمعیۃ علماء ہند اس وقت بھی قائم رہی جب ہر طرف تقسیم ہند کی وجہ سے قتل و خونریزی کا ماحول قائم ہوگیا تھا اور انسانی زندگیوں کی ارزانی پنجاب، بنگال، یوپی، بہار اور دلی ہر جگہ نظر آ رہی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہر حال میں اس بات کی کوشش کی کہ زخموں کو مرہم عطا کیا جائے لیکن اس کو کرید کر ناسور نہ بنایا جائے اور انسانی جذبات کو مذہب کے بے جا استعمال سے مجروح نہ کیا جائے۔ جمعیۃ علماء ہند کی محبت و رواداری اور حب الوطنی کی وہی پرانی روایت ہے جو آج تک قائم ہے اور ہر قیمت پر اس روایت پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ملک کی سالمیت اور اس کی وحدت کو کوئی آنچ نہ آنے پائے۔12فروری2023کو دلی کے رام لیلا میدان میں منعقد جمعیۃ علماء ہند(مولانا محمود مدنی) کے 34ویں اجلاس عام میں ’جمعیۃ علماء ہند(ارشد مدنی گروپ)‘ کے صدر جناب مولانا ارشد مدنی نے اللہ اور اوم کے تعلق سے جو بیان دیا تھا اس پر بڑا واویلا مچا اور انہیں بعض حلقوں نے اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن یہ دراصل اس ملک کی تاریخ سے ناقدین کی عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ مولانا ارشد مدنی وہی بات کہہ رہے تھے جو اس تحریک کی روح کا حصہ ہے۔ وہ اصلاً یہ بتا رہے تھے کہ اس ملک کی وحدت و سالمیت کو اگر ہمیشہ برقرار رکھنا ہے تو اس نقطۂ اتحاد کو تلاش کرنا ہوگا اور اس ڈور کے سرے کو ڈھونڈنا ہوگا جس سے پوری انسانیت مربوط ہے۔ انہوں نے ہندوستان اور ہندوستانیوں کو باہم مربوط رکھنے والی جس کڑی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اب تک اتنے بڑے پیمانہ پر اور اس جرأت اور وضاحت کے ساتھ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ ہندوستان کا ہر طبقہ خواہ وہ کسی بھی مذہب اور عقیدہ کا ماننے والا ہو، دراصل ایک آدم کی اولاد اور ایک ہی غیبی طاقت کا پجاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہندو میتھالوجی میں جس غیبی طاقت کو اوم اور انسان اول کو منو کہا جاتا ہے، اسے اسلامی تاریخ میں اللہ اور آدم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نقطہ اس حیثیت سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ مولانا ارشد مدنی نے نہ صرف ہندوتو کی اس بنیاد پر سخت ضرب لگائی ہے جس کے تحت اب تک یہ پروپیگنڈہ سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ذریعہ چلایا جاتا رہا ہے کہ ہندوستان پر صرف انہی لوگوں کا حق ہے جن کی تہذیب و ثقافت اور مذہب کا وجود اس سر زمین سے ہوا ہے بلکہ انہوں نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ پوری دنیا میں تمام اقوام الخلق عیال اللہ کے یونیورسل نظریۂ اتحاد کے تحت ایک ہوسکتے ہیں۔ مولانا مدنی کے اس بیان پر گہرائی سے غیر جانبدرانہ غور و فکر کی ضرورت ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی اور دیگر کمزور طبقوں کے درمیان بھی اس کو پھیلانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ہندوتو کے اس پروپیگنڈہ کی بنیاد ٹوٹ جائے جس کو اساس بناکر اس ملک کے عوام کو توڑنے اور بکھیرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ہندوتو عناصر نے اسی پروپیگنڈہ کا استعمال کرکے اکثریتی طبقہ کے ذہن و دماغ کو اس بات کے لیے بھی قائل کر لیا کہ سی اے اے جیسا دستور مخالف قانون اس ملک میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا ارشد مدنی جس تناظر میں یہ باتیں کہہ رہے تھے، اس کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ وہ جس وقت اپنا کلیدی خطبہ دے رہے تھے، اس وقت اسٹیج پر تمام مذاہب کے نمائندگان موجود تھے اور اسی لیے وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہ رہے تھے کہ یہ پیغام ہر طبقہ تک مثبت انداز میں پہنچ جائے اور اس پہلو سے غور و خوض کا سلسلہ شروع ہو کہ ہندوستانیوں کو عقیدہ و مذہب کے نام پر بانٹنا کس قدر اَدھرم کا کام ہے۔ وہ اپنی تقریر کے ذریعہ کوئی نئی بات نہیں کہہ رہے تھے بلکہ اس ملک کی اسی قدیم روایت کو دہرا رہے تھے جس کے تحت اقبالؔ نے کہا تھا کہ مذہب آپسی رنجش و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا ہے بلکہ مذہب کا کام جوڑنا اور اتحاد پیدا کرنا ہے۔ یہی روایت اس ملک کے ہر دھرم اور مذہب کی رہی ہے۔ اسی سر زمین کے ایک ممتاز سپوت گرونانک کی نمایاں خوبیوں کا ذکر جب اقبالؔ کو کرنا ہوا تو سب سے زیادہ ان کے پیغامِ وحدت کو بیان کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ہندوستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہندوتو کی سیاست کے عروج سے قبل اس ملک میں مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرنے کی تاریخ نہیں رہی ہے۔ اس کے برعکس تمام وہ قومیں جو دنیا کے الگ الگ خطوں میں مجبور و مقہور ہو رہی تھیں، انہوں نے ہندوستان کا رُخ کیا اور یہاں ان کا نہ صرف استقبال ہوا بلکہ ان کی تہذیب و ثقافت کو بھی پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کیے گئے اور کبھی یہاں کی قدیم ثقافتوں کو اس کا خوف نہیں ہوا کہ وہ اپنا امتیازی وصف کھو دیں گی۔ ہندوستان کی تہذیب ہمیشہ سے مظلوموں کو گلے لگانے کی تہذیب رہی ہے۔ گلا کاٹنے کی تہذیب آج بھی صرف ایک خاص نظریہ کے حاملین کے نزدیک معتبر ہے۔ ورنہ اس ملک کا عمومی مزاج آج بھی محبت و رواداری اور بقاء باہم کے اصولوں کو فروغ دینے میں یقین رکھتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے بھی اس بات کے تئیں اپنے اس التزام کا اعادہ کیا ہے کہ ہر حال میں اس ملک کے اندر اتحاد کا پرچم بلند رکھا جائے اور ہندوستانیوں کو دین و دھرم کے نام پر تقسیم نہ کیا جائے۔مولانا ارشد مدنی کے بیان کو تنقید کا نشانہ صرف وہی شخص بنا سکتا ہے جسے معلوم ہے کہ ان کے بیان سے وہ بنیاد گرتی نظر آ رہی ہے جس کے سہارے اب تک ان کے اقتدار کی کرسیاں ٹکی ہوئی تھیں۔ لیکن جہاں تک عام ہندوستانیوں کا مسئلہ ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اس بیان کی حقیقی روح کو سمجھیں اور ملک میں انتشار و تقسیم کی سیاست کے خلاف ایک مضبوط قوت بن کر کھڑے ہوجائیں۔ یہی وقت کا تقاضہ اور اسی میں ملک کی ترقی و سالمیت کا راز مضمر ہے۔ بلا شبہ مولانا محمود مدنی اس بات کے لیے قابل مبارکباد ہیں کہ اُنہوں نے تمام مذاہب کے پیشواؤں کو ایک جگہ جمع کیا اور یہ مثبت پیغام دینے کی راہ ہموار کی اور پروگرام کے آرگنائزر ہونے کی حیثیت سے کسی کی دل شکنی پر معافی کا ہاتھ بڑھا کر اُنہوں نے اسلامی دعوت کے اصول کی پاسداری بھی کی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ناراض جینی مذہبی پیشوا نے بھی معافی کا بر ملا اعلان کر دیا ہے اور بہتر ہوگا جتنی جلدی ممکن ہوسکے وہی تمام مذہبی پیشوا ایک بار پھر ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عدم ناراضگی و آپسی اتحاد کا اعلان کرکے نفرت پسندوں کو کوئی موقع نہ دیں اور عوام کومثبت و محبت کا پیغام دیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

 

 

 

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS