جامعۃ الہدایۃجے پور،تاریخ وخدمات کے آئینے میں

0

محمد شمشاد ندوی
جامعۃ الہدایہ جے پور دینی وعصری علوم کا حسین امتزاج واصلاح نصاب کی ایک طاقتور تحریک اورتعلیمی مشن ہے ،جس کے منفرد نصاب، نظامِ تعلیم ،وسیع وعریض کیمپس اورسہولیات سے بھرپور جدید طرزِ تعمیرکی شاہکار عمارتوں نے، ملت اسلامیہ ہندیہ کی تاریخ میں روشن باب کااضافہ کیاہے، اس تحریک کے بانی حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحیم صاحب مجددیؒ نے اپنے دادا حضرت مولاناشاہ محمد ہدایت علی مجددی نقشبندی ؒکے خواب کوشرمندۂ تعبیرکیا ،اورایک عظیم مشن کی بنیادرکھی ، حضرت مولاناشاہ محمد فضل الرحیم صاحب نقشبندی مجددی کو اپنا جانشین بنایا اوراس کاافتتاح مفکراسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃاللہ علیہ کے دست مبارک سے ۸،۹؍دسمبر ۱۹۸۵ء؁ کوعمل میں آیا، اور۱۹۸۶ء؁ میں باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔
دسمبر۱۹۸۵ء؁ میں جامعۃ الہدایہ جے پورکے افتتاحی اجلاس کے موقع پر بانیٔ جامعہ حضرت مولاناشاہ محمد عبدالرحیم صاحب نقشبندی مجددیؒ نے ایک تاریخی خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ جدامجد حضرت مولانا شاہ محمد ہدایت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے منشاء مبارکہ کومیں نے پوراکرنے کاعزم مصمم کیااوریہ سمجھاکہ غریبوں کی بھلائی، امت کی بھلائی، نادارطبقوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایسانصاب تعلیم ترتیب دیاجائے جس سے انسان انسانیت نواز بنے اوراپنا خود کفیل بنے ، توآپ یقین جانئے کہ صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ تھااوراس بات پریقین تھاکہ اللہ جل شانہٗ ضرور اس میں خیر وبرکت فرماکرتکمیل تک پہنچائے گا ، اس کی تکمیل میں دشواریاں اورناسازگار حالات پیش آئے لیکن میرے پیش نظر یہ بات رہی کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ کے نزدیک کسی کام کو خلوص سے انجام دیناہے، اسی خلوص اوراستقامت کی وجہ سے اللہ نے یہ مبارک دن ہمیں اورآپ کو دکھایا، حضرت مظہرجان جاناں شہید فرماتے ہیں۔
ہراہل استقامت فیض ناز ل می شود مظہر
نمی دانی تجلی کوہ طور می گردد
(ماہنامہ ہدایت،جے پور ،نومبر ۱۹۹۴ء؁ بانیٔ جامعہ نمبر)
سید اقبال حسین صاحب نے جامعہ کے افتتاح کے موقع پر بانیٔ جامعہ عارف باللہ حضرت مولاناشاہ محمد عبدالرحیم صاحب نقشبندی مجددیؒ سے ایک انٹرویو لیاتھا، یہ انٹرویوبڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ حضرت والا کاپہلااورآخری انٹرویو ہے۔ اسی انٹرویو کا ایک اقتباس پیش کرنایہاں مناسب معلوم ہوتاہے۔
اس سوال ’’ہمارایقین ہے کہ سوائے ذاتِ خداوندی کے ہرچیز فانی ہے تو آپ کیاکوئی ایساانتظام کرکے جائیں گے جو کل آپ کے بعد اس ادارہ کانظم ونسق جیساکہ آپ چاہتے ہیں بدستور قائم رہے اورنہ صرف قائم رہے بلکہ اس میں روز افزوں ترقی ہوسکے؟ کے جواب میں بانیٔ جامعہ نے فرمایا: ’’مجھے ذاتِ واحد سے قوی امیدہے کہ میرے بعد فضل الرحیم میں ادارہ کوچلانے کی پوری پوری صلاحیت دیکھ رہاہوں، اب بھی ادارہ کے انتظامی امورمیں ان کاہی عمل دخل ہے‘‘۔(ماہنامہ ہدایت نومبر۱۹۹۴ء؁ بانیٔ جامعہ نمبرص ۸۵،۸۷)
مفکراسلام حضرت مولاناسید ابولحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۷۶ء؁ میں اس ادارہ کی سنگ تاسیس کے موقع پر اس علاقے کو اپنی ظاہر ہیئت کے لحاظ سے مکہ اورمدینہ کے مشابہ قراردیاتھا۔ حضرت مولاناعلی میاںؒ اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ۔
۱۷؍اکتوبر۱۹۷۶ء؁ کو اس ناچیز راقم سطور کوسنگ تاسیس رکھنے کی عزت بخشی پھردسمبر ۱۹۸۵ء؁ میں اس جامعہ کاافتتاحی اجلاس ہواجس میں دوسری ریاستوں کے ممتاز علماء ،ماہرین تعلیم اوردانشوران کودعوت دی گئی اور اس عاجز کو عام اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب کیا۔
اس موقع پرجب راقم نے اس’’وادی ہدایت‘‘میں قدم رکھا تواس منظرکودیکھ کر کہ پہاڑوں کے درمیان ایک غیر آباد علاقہ میں خداکے ایک مخلص بندہ اورصاحب عزیمت انسان کی عالی نظری اوراولولعزمی کے طفیل جامعۃ الہدایہ کی شاندار عمارت کھڑی ہوئی ہے، بے اختیار مولانااسلم جے راج پوری کایہ شعر زبان پر آگیا اوراسی سے راقم نے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
عزم راسخ ہے نشانِ قیس وشان کوہ کن
عشق نے آباد کرڈالے ہیں دشت وکوہسار
اب یہ وادی ،وادیٔ ہدایت بن گئی اورجامعہ کی وسیع ،شاندار اورخوبصورت عمارتوں اوروہاں کے رہنے والے طلبہ واساتذہ کی وجہ سے جنگل میں منگل کا سماں نظرآتاہے۔
(ماہنامہ ہدایت، جے پور، نومبر ۱۹۹۴ء؁ بانیٔ جامعہ نمبر)
امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک جامع مضمون کاایک اقتباس بھی یہاں پیش کرنامناسب معلوم ہوتاہے۔
’’جامعۃ الہدایہ جے پورکا نظام تعلیم نگاہ کواپنی جانب مائل کرتاہے اوردل میں جگہ بناتاہے، جامعہ کی مرکزی عمارت میں سرخ پتھروں کا بڑے سلیقے کے ساتھ استعمال کیاگیاہے، نئے عہد میں لال قلعہ کاعکس ِجمیل یہاں بام ودرسے جھانکتاہے، یہ تعمیری حسن ووقار ، سادگی وپرکاری، ترتیب ونظافت، بانیٔ جامعہ کے حسن فکر ، حسن انتخاب اورحسن عمل کا نمونہ ہے۔
ان عمارتوں پرجب میری نظرپڑی تودل سے آواز آئی کہ ہمارے حضرت شاہ صاحب علماء میں شاہجہاں ہیں،اورجامعۃ الہدایہ مدارس اسلامیہ کا تاج محل ہے، علماء کرام سے مدارس کی عمارتوں میں جو کمی کوتاہی ہوئی ہے ان سبھوں کی طرف سے یہ بہترین کفارہ ہے‘‘۔
حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی بانیٔ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا وسابق قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ، اپنے خیالات کایوں اظہارفرماتے ہیں۔
’’ایک ویرانہ اورصحراکیسے گلزار بنتاہے اوراللہ تعالیٰ کبھی ایک فرد سے کس طرح بہت بڑی جماعت کاکام لے لیتاہے ،اگراس کانمونہ دیکھنا ہوتو جے پورآکرجامعۃ الہدایہ کودیکھنا چاہئے،حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والا صفات کو اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان تعلیمی ادارہ کوقائم کرنے کے لیے منتخب فرمایا، اوراس عہد میں ایسی درسگاہ کاقیام عمل میں آیاجس میں ایک طرف علوم نبوت کاچشمہ جاری ہے تودوسری طرف اس عہد کے تقاضوں کوپوراکرنے کے معاملہ میں مثالی ادارہ ہے، کسی بھی معاملہ میں ’’کم سے کم‘‘ سے صلح نہیں کی گئی ہے، اعلیٰ سے اعلیٰ معیارقائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مشکلات سے گزرنا پڑاہے اورابھی بھی بہت سی دشواریاں راہ میں حائل ہیں لیکن اصحاب عزیمت کے لیے یہ دشواریاں کچھ نہیں۔
حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی تحریر فرماتے ہیں۔
’’……احقر نے جامعہ کوظاہر ی ومعنوی ہردولحاظ سے خوب ترپایا اورجدید وقدیم کے امتزاج اوراس امتزاج میں اعتدال وتوازن نے خاص طورسے متاثرکیا ، یہ حقیقت ہے کہ عارف باللہ حضرت مولاناشاہ محمدعبدالرحیم صاحب مجددیؒ نے جامعۃ الہدایہ کے قیام کے ذریعہ اس ملک میں ایک تجدیدی کارنامہ انجام دیاہے اوریہ جدیدوقدیم امتزاج کے اعتبارسے پورے ملک کے مدارسِ اسلامیہ کے لیے اسوہ کا درجہ رکھتاہے۔
جامعۃ الہدایہ نے اسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم اورتکنیکی تعلیم کواپنے نصاب میں شامل کرکے مدارسِ اسلامیہ کی تاریخ میں اہم رول اداکیا، اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں امت میں تعلیمی انقلاب پیداکرنا ہے ،امت کوجہالت کی تاریکی سے نکال کر ہمہ جہت ترقی پرگامزن کرناہے، جامعۃ الہدایہ کے کامیاب تجربہ کے بعد ۱۹۹۷ء؁ میں امام گروپ آف اسکولس کی بنیاد رکھی گئی ،اردواور اسلامیات کوخصوصیت سے نصاب میں شامل کیاگیا، نصابی کتب میں انہی کتابوں کو جگہ دی گئی، جن کو پڑھ کر طلبہ ملک وملت کے لیے مفید ثابت ہوں اورخود دونوں جہان میں کامیاب وبامراد ہوں، اسی طرح امت کی تعلیمی ، فلاحی اورسماجی کاموں کے لیے دیگرمستحکم ادارے قائم کئے گئے، گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کی قانونی چارہ جوئی کے لیے بھی ایک تنظیمFFCL قائم کی گئی اورمظلوموں کوانصاف دلانے کے لیے پچاس وکلاء کی خدمات حاصل کی گئیں، الحمدللہ حضرت مولانامحمد فضل الرحیم مجددی دامت برکاتہم کی کوششوں سے انصاف کے حصول میں بڑی کامیابی ملی اورمظلومین کوانصاف ملا اور ظالموں کے حوصلے پست ہوئے، سِوِل سروسیز اوردیگر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لیے کریسنٹ اکیڈمی کاقیام عمل میں آیا اوراس ادارہ نے کم مدت میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے،ہرسال کے نتائج حوصلہ افزارہے ہیں کریسنٹ اکیڈمی کا پہلا سنٹر علی گڑھ میں ۲۰۰۲ء؁ میں قائم ہوا، جس کے بانی حضرت مولانامحمد فضل الرحیم صاحب مجددی ہیں جن کا شمارشمالی ہندکی ایک بڑی روحانی شخصیت ، ماہرتعلیم اورداعی ومصلح کے طورپر ہوتاہے، آج کی تاریخ میںاکیڈمی نے باوجود محدود وسائل وذرائع کے پونے دوسوکے قریب آئی اے ایس، آئی ایف ایس، آئی پی ایس،ججز اورسول سرونٹ ملک کے مختلف حصوں میں پیداکئے ہیں۔
جامعۃ الہدایہ جے پور میں کئی اہم اجلاس،کانفرنس اورسیمینار کاانعقادہوا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے دواہم تاریخی اجلاس ،عالمی رابطۂ ادب اسلامی سیمینار ،ورلڈ مسلم ڈیولپمنٹ بینک کاتعلیمی پروگرام ،اسلامک فقہ اکیڈمی سیمینار خصوصیت سے قابل ذکرہیںنیز آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے شعبۂ تفہیم شریعت کا پروگرام بھی منعقد ہوچکاہے بورڈ کے تحت دارالقضاء جے پور بھی قائم ہے اوربورڈ کی مہم کے تحت خواتین کا عظیم الشان اجلاس بھی جامعہ کی سرپرستی میں ہوچکاہے،گزشتہ ماہ جامعۃ الہدایہ کی سرپرستی میں عالمی مظاہرہ ٔ قرأت کا انعقادہوا جوکامیابی سے ہمکنارہوا، اسی طرح امیرجامعہ حضرت مولانامحمد فضل الرحیم مجددی نے سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے اورسیاسی اورتعلیمی بیداری لانے اورمعاشی پسماندگی دورکرنے کے لیے الگ الگ صوبوں اورخطوں میں کانفرنس وسیمینار کاانعقاد کیا،مشن کے پلیٹ فارم سے انسانوں کی فلاح وبہبود خصوصیت سے امت مسلمہ کی تعلیمی، سیاسی، معاشی اورسماجی ترقی کی جدوجہد جاری ہے تاکہ امت مسلمہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت وسربلندی کو حاصل کرلے۔
بانیٔ مشن: مشن کے بانی حضرت مولانا محمد عبدالرحیم صاحب مجددیؒ کے آباء واجداد روہیلہ پٹھان تھے، آپ کے پردادا جناب یوسف علی خان صاحب رامپور (یوپی) آکر بس گئے تھے، وہ گھوڑوںکے ایک کامیاب تاجر تھے، جوناگڑھ گجرات کے دوران سفر ۱۸۵۶ء؁ میں ان کا انتقال ہوگیا، اوروہاں کے شاہی قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
حضرت مولاناشاہ محمد ہدایت علی ؒ ان کے سات بیٹوں میں سے سب سے بڑے تھے، کچھ عرصے کے بعد شاہ محمد ہدایت علی صاحبؒ جے پورہجرت فرماگئے، ہدایت علی صاحبؒ کے چارصاحبزادوں میں سے سب سے بڑے صاحبزادے حکیم الطاف علی خاں صاحب تھے، جوکہ حضرت مولانا محمد عبدالرحیم صاحبؓ کے والد محترم تھے، آپ کی تاریخ پیدائش ۱۹۲۰ء؁ کی ہے۔
مولانا شاہ محمد ہدایت علی صاحب مجددی نقشبندی ؒ ایک بڑے صوفی بزرگ ،عالم دین، مفکراورمصنف تھے، آپ کی ذہانت اورروحانی بصیرت کاعکس آپ کے محبوب پوتے مولانا محمد عبدالرحیم صاحب مجددیؒ میں نظرآتاتھا، شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد بارِ خلافت آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے ہی کاندھوں پرآیا۔
شاہ محمد ہدایت علی صاحبؒ موجودہ تعلیمی نظام کے اندرایک بنیادی اورانقلابی تبدیلی کے خواہاں تھے، وہ ایک ایسے تعلیمی ادارہ کا قیام چاہتے تھے، جس کے طلبہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ موجودہ دنیاوی تقاضوں کو پوراکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ وہ دینی ودنیوی دونوں فوائد سے محظوظ ہوں۔
جامعۃ الہدایہ اس مشن کا صرف ایک حصہ ہے، اس مشن کامقصد ملت اسلامیہ کی مجموعی طورپرترقی اوراس کے کھوئے ہوئے درخشاں ماضی کی بحالی ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے مولاناآخرتک جدوجہد کرتے رہے، ایک ایسے مردمومن کی طرح جس نے شریعت وطریقت کے حسین امتزاج کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے لیے بے غرض ہوکرسادگی کے ساتھ اپنی زندگی کووقف کردیا۔
جامعۃ الہدایہ جے پور دینی وعصری علوم کا حسین امتزاج اوراصلاح نصاب کی ایک طاقتور تحریک اورتعلیمی مشن ہے، الحمدللہ جامعہ کی تحریک حضرت مولاناشاہ محمد فضل الرحیم صاحب نقشبندی مجددی کی امارت میں کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے، اس طرزپر مدارس قائم ہورہے ہیں اورقدیم مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری علوم کی شمولیت کا عمل جاری ہے، اللہ تعالیٰ جامعۃ الہدایہ ،اوراس تعلیمی تحریک کو مکمل کامیابی سے ہمکنار کرے تاکہ علوم دینیہ وعصریہ سے آراستہ افراد تمام شعبۂ حیات میں دنیا کی قیادت ورہبری کرسکیں،اورامتِ مسلمہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت وسربلندی کو حاصل کرلے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS