عالم اسلام کی قدیم اور مشہور دینی درسگاہیں

0

مولانا قاضی اطہر مبارکپوریؒ
(1) دارِارقم، مکہ مکر مہ:جہاںخود حضوراکرمؐ معلم اول تھے۔حضرت خباب ابن الأرتؓ ،حضرت مصعب ابن العمیرؓاورعبداللہ ابن ام مکتومؓ یہاں تیارہوئے۔ مسجد ِنبو ی:70 سے لے کر400 تک تعداد بڑھتی گھٹتی رہی۔حضرت ابوموسی اشعریؓ یہاں کے مشہور طلبہ میں سے ہیں۔ درسگاہ مسجدِ قباء:حضرت مصعب ابن عمیرؓ اور عبد اللہ ابن ام مکتومؓ یہاں ہجرت نبوی سے پہلے ہی معلم مقرر ہوئے تھے۔ (2) دو رِ صحابہ : دور صحابہ میں مساجدمیں عموماََ تعلیمی حلقے اور مجالس قائم ہوئیں۔علم کو بہت فروغ حاصل ہوا۔صحابہؓ اجرت نہیں لیتے تھے،قرآن ،حدیث فقہ قضاء اور فتوی کے ساتھ تیراکی،نشانہ بازی اور شہسواری کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔حضرت سعدابن ابی وقاصؓ ،عبداللہ ابن مسعودؓ،ابوموسی اشعریؓ،جابرابن عبداللہؓ،حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے حلقے مرجع خاص وعام تھے۔ (3) عہد تا بعین:عہد تابعین میں معلم کے انتخاب اور اخذروایت میںنہایت احتیاط برتی جانے لگی۔اس لئے کہ جبریہ،قدریہ،مرجیہ،خوارج اور روافض جیسے باطل فرقوں نے سراٹھانا شروع کردیاتھااور عموماََ عمل میں تہاون اور سستی پیداہوگئی تھی۔اسی وجہ سے سند اور نقد وجرح کی شدت سے ضرورت محسوس کی جانے لگی۔یہیں سے علمی اسفار کی کثرت کا دور شروع ہوا۔امام زہریؒ، ابراہیم النخعیؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور دیگر ائمہ مجتہدین ؒاور محدثینؒ کے حلقے اور مجلسیں اس دور کا خاصہ ہیں۔ (4) 400 ہجری :الحاکم بامراللہ نے سلطنت کی جانب پہلا مدرسہ قائم کیا۔ (5) مدرسہ بیہقیہ :نیشاپور جہاں امام الحرمینؒ نے تعلیم پائی اور دیگر دو مدارس قائم ہوئے۔ (6) 410ہجری:غزنی میں محمود غزنویؒ نے بہت شاندارمدرسہ قائم کیا۔ (7) 456 ہجری :میں عباسی خلفاء سلجوقی وزیراعظم نظام الملک طوسی نے اس عظیم الشان دارالعلوم کوقائم کیاتھاجو مدرسہ نظامیہ کے نام مشہور ہوا۔شاہ عبدالقادرجیلانیؒ،ابن الخطیب ؒ تبریزی،امام غزالی ؒ وغیرہ یہیںکے فارغ التحصیل طلبہ ہیں۔شیخ سعدی ؒشیرازی آخری زمانے کے طالبِ علم تھے۔نظامیہ کا فیض تین سواسی برس تک جاری رہا۔یہاں تک کہ نظامیہ کانصاب تعلیم پورے عالم اسلام کا نصاب قرار پایا۔نظامیہ کے فیض یافتگان میں علامہ زمخشریؒ،شہرستانی ؒ،آمدیؒ، عمرخیامؒ اورشیخ شہاب الدین سہروردیؒ جیسے علماء شامل ہیں۔
نظامیہ کے تحت اصفہان،نیشاپور،مرو،خوزستان،موصل،بصرہ،ہرات،بلخ وغیرہ شہروں میں اسی نام سے مدارس قائم ہوئے۔ (8) نورالد ین زنگی: المتوفی579 ہجرینے دمشق میں ایک بہت شاندار مدرسہ قائم کیا اور اسی نے سب سے پہلا دارالحدیث بھی بنایا۔کئی اوربڑے بڑے مدارس مختلف شہروں میں بنائے۔ (9) 662 تا 829 ہجری ترکستان میں بہت بڑے مدارس قائم ہوئے جیسے منصوریہ،ناصریہ،یبریسیہ،مدرسہ اشرفیہ وغیرہ جہاںچاروں مذاہب کے فقہ کا درس ہوتا تھا۔ان مدارس کے فارغین عموماًوزرا اور حکومت کے اعلی عہدوںپر فائز ہوتے تھے۔سلطان محمدنے 865ہجری میں یونیورسٹی کے طرز کا ایک بڑا دارالعلوم قائم کیا جس کے تحت ۸بڑے بڑے مدرسے دارالاقامہ کے ساتھ کام کرتے تھے۔دسویں صدی ہجری تک پورے ترکی میں مدرسوں کاجال پھیل گیا۔ (10) ا ند لس کا حا کم خلیفہ الحکم ثا نیؒ: (358تا366ھ)نے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں کالج اوردارالعلوم قائم کئے۔کثرت سے کتب خانے کھولے جہاںطالبِ علموں کو پڑھنے کی بڑی سہولتیں تھیں۔اشبیلہ،قرطبہ اورغرناطہ کی جامع مسجدوں میں مرکزی درسگاہیں قائم ہوئیں جہاں فلکیات،ریاضی،کیمیا اورطب کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔غرض اندلس کے دارالعلوم یورپ کی تمام یونیورسٹیوں کے پیش روہیں۔ہردارالعلوم کے ساتھ دواسازادارے،رصدگاہیں اورتجربہ گاہیںملحق تھیں،یہیں سے بہت سے نامور مسلم سائنس داں پیداہوئے۔دارالعلوم قرطبہ نے زبردست شہرت حاصل کی۔عبدالرحمنؒ سوم نے اس کی بنیادرکھی تھی۔ (11) صقلیہ: میں بھی بہت سے مدارس تھے جہاں خصوصاََ عقلی علوم یعنی ریاضیات،فلکیات وغیرہ کابڑا چرچاتھا۔ (12) مصر:میںقاہرہ کا جامع ازہردنیاکی قدیم ترین دینی درسگاہ مانی جاتی ہے ۔تیسری صدی ہجری میں شیعہ فرقہ کے فاطمی سلاطین نے اسے قائم کیاتھا۔لیکن رفتہ رفتہ اس میں تمام فرقوں کے فقہ کی تعلیم ہونے لگی۔آج بھی دنیاکی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی تسلیم کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں (13) دہلی:شہاب الدین غوری ؒکا اصلی نام معزالدین محمدغوری ہے۔شمس الدین التمش ؒنے دہلی اوربدایون میں ساتویں صدی ہجری میں مدرسئہ معزی کے نام سے دومدرسے قائم کئے۔715ھ میں سلطان قطب الدین مبارک شاہ خلجیؒ نے مسجدقوت الاسلام بنائی جہاں اب قطب مینار واقع ہے۔مسجد کے اطراف میں حجروں کے کھنڈرات ایک زبردست مدرسے کے وجود کا پتہ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ دہلی میں خرم آباداورحوضِ خاص میں مدرسہ قائم ہوئے۔لیکن سب سے زیادہ شہرت فیروزشاہ کے 755ھ میں بنائے گئے مدرسئہ فیروزشاہ ہی کو حاصل ہوئی۔جلال الدین رومی ؒاس مدرسہ کے مدرس دینیات رہے ہیں۔شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ :عہدِجہانگیر میں ایک مدرسہ کا ذکر کرتے ہیںجہاں انہوں نے تعلیم پائی ۔اورنگزیب عالمگیر ؒکے محبوب معتمد حیدرآبادکے نواب آصف جاہ ؒکے والد امیرغازی الدین نے اجمیری دروازے کے قریب دہلی میں ایک نیا مدرسہ بنایا۔بعد ازاں یہ مدرسہ کمپنی کے تحویل میں آگیا۔ (14) مدرسہ ر حما نیہ جسے شاہ عبدالرحیم صاحبؒ نے قائم کیا جس کی آغوش میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ،شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ ،شاہ عبدالقادرصاحبؒ،شاہ اسماعیل شہیدؒ،اورشاہ اسحاق صاحبؒ جیسے نابغہء روزگارعلمائے کرام پل کر جوان ہوئے جنہوں نے بر صغیر کے چپہ چپہ کو علم حدیث کے نور سے منور کردیا۔ (15) لاہور، پنجاب، آگرہ،فتح پورسیکری،متھرا،بدایوں،رامپور،بریلی،پیلی بھیت،لکھنؤ،جونپورمیں عہداسلامی میں بہت مدارس اورعلمی مراکز نے بڑی شہرت حاصل کی۔گجرات،بنگال اور بہار کے علاوہ جنوبِ ہندمیں برہان پور، بیجاپور، گلبرگہ، بیدر، احمدنگر اور مالوہ میں مدارس کا ذکرملتاہے۔علامہ بحرالعلوم فرنگی محلیؒ کو مدارس کی دعوت دیکر نواب والاجاہ نے مدرسہء اعظم قائم کیا تھا۔
غرض اسلامی حکومت کے زوال اور برطانوی سامراج سے پہلے تک ہمیشہ سے حکمرانوں بادشاہوں نوابوں اور ان کے وزراء نے عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں مساجدکے ساتھ مدارس اور مکاتب قائم کرنے کا اہتمام کیا۔جاگیریں وقف کیں،علماء اور طلباء کی خدمت کی،بیش بہاعطیہ جات دئے جس سے اسلامی علوم کو فروغ حاصل ہوتا رہا۔مغربی استعمال جیسے جیسے حکومتوں کو زوال آیا،مدارس ختم ہوتے اور مٹتے چلے گئے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS