یہ رنگ بدلنے کا مو سم: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

آج کل انتخابات کا دور ہے۔ہر سیاسی پارٹی بڑھ چڑھ کر جملے اچھال رہی ہے۔بے شمار وعدے کیے جا رہے ہیں، حد تو اس وقت ہوجاتی ہے جب بھولے بھالے عوام ان جملے بازیوں اور وعدوں کے جال میں گرفتار ہو کر ان کو اپنا قیمتی ووٹ دے بیٹھتے ہیں۔کامیاب ہونے کے بعد ان سیاسی رہنمائوں کو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ انہوں نے عوام سے کون سے وعدے کیے تھے؟ کیسے کیسے سبز باغ دکھائے تھے؟ کیسے جملے اچھالے تھے ؟ اصل میں آج کل سیاست میں کیا نہیں ہوتا۔جھوٹ پر جھوٹ بو لے جاتے ہیں۔پارٹی اور پالے بدلے جاتے ہیں۔مختلف نظریا ت رکھنے والی پارٹیوں کا اجتماع(گٹھ بندھن) ہو جا تا ہے۔ کل تک جو سیاسی جماعت،دوسری پارٹیوں کو،ان کے نظریات کو اور ان کے طرزِ عمل کو برا بھلا کہتی تھی،ان کے کاموں پر اعتراض کرتی تھی،انتخاب کے موقع پر ہوئے اتحاد کے بعد وہ ان کی تعریف کرتی ہے۔اور اگر گٹھ بندھن نہ ہو تو ان کی نظر میں ان سے برا کو ئی نہیں۔ آج کل سیاسی رہنما کچھ بھی کہیں تو ان کی پکڑ نہیں ہوگی کہ یہ انتخابات کا موسم ہے۔
بہار کو دیکھیں۔پہلے یہاں نتیش کی حکومت بی جے پی کی حمایت سے تھی۔نتیش کمار نے قلا بازی کھائی اور بی جے پی کو انگوٹھا دکھا دیا۔راشٹریہ جنتا دل سے ہاتھ ملاتے ہوئے لالو کے بیٹے تیجسوی یادو کو اپنے ساتھ ملایا اور سرکار بنائی۔ تیجسوی یادو کو نائب وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ بی جے پی،دیکھتی رہ گئی۔عوام میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔آر جے ڈی خوش تھی کہ اسے اور اس کے ایم ایل ایز کو حکومت میں شامل ہو نے کا موقع ملا،لیکن پارلیمانی انتخابات کے عین موقع پر نتیش کمار نے پھر اپنا اصلی روپ دکھایا اور این ڈی اے کے خیمے میں چلے گئے۔آر جے ڈی سے ناطہ توڑ کربی جے پی سے ہاتھ ملا لیا۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب حزب مخالف کا اجتماع ہوا تو نتیش کمار آگے آگے تھے۔اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کے قیام کی بنیاد میں نتیش کمار کی دور رسی اور فہم شامل تھی۔لیکن ’انڈیا‘ سے الگ ہو کر نتیش کمار نے سب کو حیران کر دیا۔نتیش کمار پہلے بی جے پی کی برائی اور کانگریس و آر جے ڈی کی تعریف کر تے تھے،اب بی جے پی کی تعریف اور گانگریس و آر جے ڈی کی برائی کرتے نظر آتے ہیں۔یہ سب سیاست میں ہو تا ہے۔
مغربی بنگال کی بات کی جائے تو بہت حیرانی ہوتی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ممتا بنر جی کی بنگال کے عوام پر پکڑ بہت اچھی ہے۔ممتابنرجی تین بار سے مغربی بنگال سے وزیراعلیٰ ہیں۔گزشتہ بار جب مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو بی جے پی نے بہت زور لگایا، طرح طرح کے حربے اپنائے اور گورنر نے اپنا رعب گانٹھنے کی کو شش کی۔امت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی نے ممتا کو مات دینے کی ہرممکن کو شش کی۔یہاں تک کہ امت شاہ نے سی اے اے اور این آر سی لاگو کرنے کے پینترے تک دکھائے۔ مگر نتیجہ کیا ہوا،ممتا کو اکھاڑ نے کے بجائے بی جے پی ہی بنگال میں چاروں خانے چت ہوگئی۔ ممتابنرجی نے ایک بار پھر خود کو ثابت کیا۔

ممتابنرجی زمین سے جڑی سیاسی رہنما ہیں۔انہوں نے ہمیشہ حکومت سے لوہا لیا ہے۔اس وقت انہیں بی جے پی ملک کی سب سے بڑی دشمن نظر آتی ہے۔انہوں نے ملک میں پھیل رہی فرقہ پرستی،بے روز گاری، مہنگائی،غریبی اور بڑھتا ہندوتو کا سبب بی جے پی کو ماناہے اور اس بار بی جے پی کو ہرانا اپنا مقصد بنالیا ہے۔اسی مقصد کے تحت ممتا نے حزب ِمخالف کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔کوشش کی کہ بی جے پی کے مخالف نظریے کی حامل سیاسی پارٹیاں ایک ہوجائیں اور مل کر اتحاد کے ساتھ انتخاب لڑیں تاکہ پوری طاقت سے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکیں،اسی لیے انہوں نے ’’انڈیا ‘‘ بنایا۔ اس کی شروع کی کئی میٹنگوں میں شریک ہوئیں۔بعد میں ممتابنرجی کو کیا ہوا پتہ نہیں؟ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال میں اکیلے ہی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔یعنی انہوں نے بنگال کے فلسفے ’’ ایکلا چلو رے ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے بنگا ل میں اپنے دم پر زورآزمائی کرنے کی ٹھا ن لی۔ ’انڈیا‘والوں نے بہت سمجھایا مگر سب بے سود،وہ اپنے فیصلے پر قائم رہیں۔ہو سکتا ہے ممتا بنرجی کا غرور قائم رہے اوروہ خاطرخواہ کامیابی بھی حاصل کرلیں۔مگر ان کے کردار کا کیا ہوگا؟ بی جے پی کو کمزور کرنے اور اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو مضبوط کر نے کے ان کے خوا ب کا کیا ہو گا؟ اب کانگریس اور مارکسوادی پارٹیاں ایک ساتھ ہیں۔اگر یہ تمام ایک ہوتے تو نقشہ ہی الگ ہو تا۔بی جے پی کو پائوں رکھنے کی جگہ نہ ملتی،ہو سکتا ہے اب بھی نہ ملے۔مگریہ سب تو خوش فہمی ہے۔کانگریس اور مارکسوادی پارٹیاں ترنمول کانگریس کو نقصان پہچائیں گی۔

دہلی کی تو بات ہی الگ ہے۔یہ مانا جاتا ہے کہ دہلی کے عوام سیاسی اعتبار سے بہت بیدار ہیں۔ یہ مانا جاتا رہا ہے کہ دہلی میں جب ڈبل انجن سرکار ہوتی ہے تو دہلی میں اطمینان ہوتا ہے اور خوب ترقی ہوتی ہے۔ کانگریس کے زمانے میں دہلی میں بھی کانگریس کی حکومت تھی۔ شیلادیکشت کی حکومت میں دہلی نے کافی ترقی کی تھی۔اس سے پہلے بی جے پی کی دہلی پر حکومت تھی۔لیکن جب سے عام آدمی پارٹی(عاپ) نے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ سیاست میں تہلکہ مچا دیا۔اروند کجریوال کی رہنمائی نے سیاست کی صورت بدل دی۔ایمانداری اور عوامی خدمات کے بل بوتے عام آدمی پارٹی نے دہلی کے لوگوں کادل جیت لیا۔فری پانی،بجلی،مفت علاج،اچھی سڑکوں کا جال اور بہتر تعلیم نے سماجی خدمات کا معیار بدل دیا۔سرکاری اسکولوں کی عمارت اور تعلیم،پرائیویٹ اسکولوں سے بہتر ہوگئی۔اپنے کام کی بنیاد پر عام آدمی پارٹی نے کانگریس سے پنجاب کی حکومت پر قبضہ کیا۔وزیراعظم نریندر مودی اور امت شاہ نے اپنی پوری کوشش کی اور ہر حربہ استعمال کیا لیکن اروند کجریوال کی عوامی مقبولیت کو کم نہیں کر پائے۔
2024 کے انتخاب میں اروند کجریوال نے این ڈی اے کی مخالفت میں آگے آتے ہوئے کانگریس کا ساتھ دیا اور ’’انڈیا ‘‘ کے قیام میں اہم کر دار ادا کیا۔سبھی بی جے پی مخالف پارٹیوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ایک اتحاد ’انڈیا‘ بنایا۔ دہلی، پنجاب اور گجرات میں کانگریس سے اتحاد کے بعد عام آدمی پارٹی اور کانگریس کی پوزیشن مضبوط ہے۔اس کو دیکھتے ہوئے مرکزی سرکار نے اروند کجریوال کو ای ڈی کے جال میں پھنسا کر جیل بھجوادیا۔مرکزی سرکار کی یہ چال ان کے ہی خلاف پڑتی نظر آرہی ہے۔ دہلی، پنجاب،گجرات اور دیگر علاقوں میں بی جے پی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

انتخابات کے اس موسم میں کئی پارٹیوں کا اصلی چہرہ نظر آرہا ہے۔بی جے پی نے اپنے کئی موجودہ ایم پی کو اس بار ٹکٹ نہیں دیا اور چار سو پار کا نعرہ بھی دیا جو کہ بی جے پی کی زیادہ خود اعتمادی کا اظہار ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے،یہ حد سے زیادہ خود اعتمادی لے کر ڈوب بھی سکتی ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کے ووٹرس میں یہ بات چرچا میں ہے کہ ای ڈی، بی جے پی کے رہنمائوں کے خلاف کیوں کام نہیں کرتی؟ بی جے پی اتحاد کو نقصان پہچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا رہی ہے۔سب سے پہلے انہوں نے مہاراشٹر کی ادھو حکومت کو گرایا اور اپنی مدد سے شیو سینا کے باغی گروپ کے ساتھ حکومت بنائی۔ نیشنل کانگریس کے بھی دو ٹکڑے کروائے۔ اجیت پوار کو شرد پوار کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ایسی ہی کوشش انہوں نے جھارکھنڈ میں کی۔جھارکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کو ای ڈی کے ذریعہ جیل کی ہوا کھلائی۔ لیکن جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی سرکار کو حکومت سے بے دخل نہیں کر سکے۔چمپئی سورین نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔یہی حربہ انہوں نے دہلی میں اروند کجریوال کے ساتھ اپنایا۔مگر حکمراں جماعت کو شاید یہ پتہ نہیں ان کے انتخابات کے وقت ان اقدامات کا فائدہ اور نقصان کس کو ہوگا۔ کئی بار پانسہ الٹا پڑ جاتا ہے۔ ادھو ٹھا کرے،ہیمنت سورین اور اروند کجریوال کے اس موقع پر کیے گئے عمل کا رد عمل بی جے پی کو نقصان کی شکل میں ملے اور ان لیڈران کو عوامی ہمدردی حاصل ہو،جس کے نتیجے میں انہیں نقصان کے بجائے فائدہ پہنچ جائے۔

اس موسم میں بہت سے لیڈران ذاتی مفاد کے لیے پارٹیاں بدلتے ہیں۔کبھی ان کو یا ان کے کسی چہیتے کو ٹکٹ نہیں ملتا ہے۔کبھی پارٹی میں پوچھ کم ہوجاتی ہے۔کبھی کوئی بڑا گھوٹالہ کھلنے کا ڈر۔کبھی پارٹی توڑنے کا بھاری لالچ۔ان سب وجوہات سے بہت سے لوگ اپنی پارٹی بدلتے ہیں۔ پارٹی بدل کر وہ بی جے پی، کانگریس،سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، ترنمول کانگریس، راشتریہ جنتا دل، جنتادل( یو)، شیو سینا، راشٹریہ کانگریس وغیرہ کسی بھی پارٹی میں جائیں۔ راتوں رات ان کا نظریہ اور ان کی وفاداری بدل جاتی ہے۔پھر بھی ایسے سیاسی لوگوں کو عوام فتح سے ہمکنار کرتے ہیں۔یہ سب کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ کیا اس کی وجہ سیاست کے تئیں ہماری عدم توجہ ہے ؟یاسیاسی اعتبار سے ہمارے اندربیداری کا فقدان ہے؟کیا ہم لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں ؟ایسے دل بدلو سیاسی رہنمائوںکو کیا ہم لوگ سبق نہیں سکھا سکتے؟
انتخاب کے اس موسم میں ہمیں بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔یہ ثبوت ووٹ کی شکل میں ہوسکتا ہے۔ہمیں ایسے لوگوں کے کسی جھانسے میں آنے کی ضرورت نہیں۔ہمیں اپنی ووٹ کی طاقت کو پہچاننا ہو گا ورنہ ہم اگلے پانچ سال تک بس پچھتا تے رہیں گے۔ایک تو ہم اپنا ووٹ ضرور ڈالیں، یہ ہما را حق ہے۔ہمارے ووٹ نہ ڈالنے سے یہ ہوتا ہے کہ بہت کم فیصد ووٹ کاسٹ ہوتا ہے،۔جس کی وجہ سے فاتح 35 یا 40فیصد ووٹ لا کر بھی جیت جا تا ہے۔باقی 65 یا 60فیصد ووٹ تقسیم ہو کر ہار کا سبب بن جا تا ہے۔آپ کو علاقائی اور قومی سطح پر بہت غور کرنا ہو گا، کہیں آپ کا ووٹ ضائع تو نہیں ہو رہا۔سوچ سمجھ کر ووٹ کریں۔دوست اور دشمن کو پہچانیں۔عارضی اور مستقل خسارے کو نظر میں رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو:
یہ دور بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS