زین شمسی
صحافت کی نظر یوں تو سیاست پر ہوتی ہے ، لیکن اس کا اثر سماج پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔آج نفرت کی کھیتی میں بے نکیل صحافت کا ہل سب کچھ تہس نہس کر رہا ہے۔ خاص کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیاں موجودہ دور کاصحافتی فیشن ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں، احتساب کریں کہ آخر یہ سب اتنی شدت سے کیوں کر شروع ہوگیا۔ کیا واقعی مسلمان اتنے خطرناک اور خوفناک ہیں کہ قومی بحث کا موضوع ان کے بغیر ممکن نہیں ہے یا اس کے پس پشت کچھ اور ہے۔ کیا مسلمانوں کو واقعی ڈرا یا جا رہا ہے۔
بادی النظر میں یقینا مسلمان خوفزدہ ہیں۔ مگر میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حد نظر میں دنیا مسلمانوں سے خوفزدہ ہے۔ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں عالمی طاقتوں نے ضرور انہیں اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ بیشتر مسلم ممالک کی باضابطہ نگرانی ہو رہی ہے اور کئی ممالک میں غیر ملکی فوج کے بوٹوں کی بے ہنگم چیخیں معصوم و بے بس مسلمانوں کو اعصابی شکست سے دوچار کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کے اکابرین، قائدین ، رہنما اور دانشوران بھی ایسے حالات سے خود کو نکالنے کے بجائے دشمنوں کی چوکھٹ پر قطار بند ہیں۔لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ دنیا کی تمام غیر اسلامی اور غیر اللہ قومیں مسلمانوں سے بے حد خوفزدہ ہیں۔ جب آپ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ یہود و نصاریٰ کو آج بھی خالد بن ولید کی تلوار خوفزدہ کر تی ہے۔ انہیں آج بھی عمرؓ و علیؓ کا انصاف لرزہ براندام کرتا ہے۔ دنیا آج بھی حضور محمد مصطفیؐ کے فلسفہ زندگی سے نہ صرف متاثر ہو رہی ہے بلکہ انہیں اس بات کا ڈر ستا رہا ہے کہ اگر ان کے پیروکاروں کو امن و شانتی کے ساتھ رہنے دیا جائے تو دنیا میں انصاف کا دبدبہ قائم ہوجائے گا۔
غور کیجیے۔پاکستان کو چھوڑ دیں تو تمام مسلم ممالک بغیر ایٹم بم کے ہیں۔ 30سے زائد مسلم ممالک بغیر ماڈرن انڈسٹری کے ہیں۔تمام مسلم ممالک میں جدید تعلیم سائنس و ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔بیشتر مسلم ممالک بنیادی سہولتوں کے لیے ترقی یافتہ یا پھر ترقی پذیر ممالک پر منحصر ہیں۔گویا وہ اپنے پیروں پر بھی کھڑے نہیں ہو سکے ہیں تب بھی دنیا انہیں ترچھی نظر سے دیکھتی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا نہ کوئی قائد ہے اور نہ ہی محافظ ، نہ ان کے پاس نوکری ہے اور نہ تعلیم، باوجود اس کے وہ موضوع بحث ہے۔ عراق پر بمباری کے باوجود عراقیوں سے ڈرتی ہے۔ اسرائیل کو تمام تر جدید اسلحوں سے لیس کرنے کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے سے ڈرتی ہے۔ایران پر سالہا سال کی پابندیوں کے باوجود ایرانیوں کے ہنر و تعلیم سے لرزتی ہے۔ افغانستانیوں کی لڑکھڑاتی معیشت کے باوجود اس پر سخت نگرانی رکھتی ہے۔ نیویارک، لندن، پیرس ،ماسکو ،بیجنگ کی شاندار عمارتوں اور سڑکوں کا موازنہ کرتے ہوئے دبئی کی طرف دیکھتی ہے تو خواہ مخواہ ہی جلتی ہے۔گویا یوروپ اور امریکہ کا خلیج سے کوئی موازنہ نہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو طاقت، تعلیم، صحت، روزگار، سیکورٹی اور سہولت کے تمام وسائل و ذرائع سے لیس غیر مسلم ممالک کے مقابلے مسلم دنیا بالکل بونی اور کمزور ہے۔ وہ ٹھیک طرح سے ایک دن کی لڑائی کے قابل بھی نہیں ہے۔
تو پھر مسلم دنیا سے ترقی یافتہ دنیا کا اتنا بغض کیوں؟ اتنی نفرت کیوں؟
کچھ تو ہوگا مسلمانوں کے پاس جس کے خوف سے نکلنے کے لیے مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں۔ کیا چیز ہے جو وہ لوگ دیکھ رہے ہیں مگر مسلمان نہیں دیکھ پارہے ہیں۔کہیں وہ اذان تو نہیں جو روزانہ پانچ وقت فلاح و ترقی کی طرف بلاتی ہے، جسے سن کر اصنام اوندھے منھ گرتے تھے مگر اب مسلمانوں کے کان ہی بہرے ہوگئے ہوں۔ دوسری قومیں اذان کا مطلب سمجھتی ہیں، اس لیے وہ مسلمانوں سے ڈرتی ہیں کہ کہیں مسلمان بھی اذان کا مطلب نہ سمجھنے لگ جائیں۔کہیں وہ روزہ تو نہیں کہ بھوکے رہ کر بھوکوں کی بھوک کا احساس کرنا اور صبر و برداشت کے سہارے تکلیف دہ حالات سے اللہ پاک پر اعتماد کرتے ہوئے گزر جانا۔ کیا یہ پریکٹس غیر قوموں کو ڈراتی نہ ہوگی۔کہیں یہ زکوٰۃ تو نہیں کہ جس کے منظم ہوتے ہی غریبی کا خاتمہ یقینی ہے۔ کیا کاروباری قومیں اس سسٹم سے خوفزدہ نہیں ہو سکتی ہیں؟مسلم دشمن طاقتوں کو بس ایک ہی خوف ستا رہا ہے کہ کہیں مسلمان اسلام کو سمجھنے نہ لگیں۔اسی لیے ان کی تمام کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ مسلمانوں کو خانوں میں بانٹ دیا جائے اور اس کے لیے مسلمانوں کے ہی اکابرین و علما کا سہارا لیا جائے۔ کسی کو نواز دیا جائے، کسی کو انعام دیا جائے، کسی کو عہدہ بخش دیا جائے۔مسلم مخالف طاقتوں نے بڑی آسانی کے ساتھ مسلمانوں کو ہی مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کو پٹتے دیکھ کر دوسرا خوش ہو رہا ہے، بغیر یہ سمجھے کہ بس ان کی باری آنے والی ہے۔یہ سارے مظالم جبر و تشدد صرف اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ مسلمان اتنے الجھ جائیں کہ انہیں اسلام یاد ہی نہ آئے۔
دراصل ہم ان کے جال میں الجھ کر خود کو بھول بیٹھے ہیں۔ ہمیں اپنا کام بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ کرتے رہنا چاہیے تاکہ اہل وطن کے وہ لوگ جو آج بھی مسلمانوں کی حفاظت کو ذمہ داری سمجھتے ہیں، انہیں یہ نہ لگے کہ مسلمان اپنے آپ حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔ ہمیں سماجی کاموں میں کسی نہ کسی طرح سے دخل دینا ہی ہوگا۔ سماجی سروکاروں میں حصہ لینا ہی ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ شکست و مایوسی پائیدار اور مستحکم فتح کی جانب ایک قدم ہے۔ شکست میں کامیابی کانسخہ کیمیا اپنے کچھ اجزا کے ساتھ موجود ہوتا ہے جو حوصلہ کے خوردبین سے مثبت نتائج کا نظارہ دکھا جاتا ہے، جسے دماغ کی آنکھوں سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔جب جب کسی طرح کا بحران محسوس ہوتا ہے تب تب دماغ کی شرینی میں ابال آتا ہے اور وہ کسی حد تک فیصلہ پر آمادہ نظر آتا ہے۔ہمیں بس کچھ چیزوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ ہم بھارتیہ مسلمان ہیں ، عرب اور ایران کے مسلمان نہیں ہیں۔ ہم نے دوسرے مذاہب کے ساتھ جینا سیکھا ہے، ان کے ساتھ کھانا اور پڑھنا سیکھا ہے۔ ہماری خوشیوں اور دکھوں میں ان کا دخل ہے۔ ہم ان کے یہاں نوکری پاکر خوش ہوتے ہیں اور ان کے یہاں ہی علاج معالجہ کرا کر دکھوں سے نجات پاتے ہیں۔ ان کے یہاں ہی انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ گویا یہ مختلف المذاہب غیرجیسے دِکھنے والے لوگ ہماری زندگی کا کچھ یوں حصہ ہیں کہ گھر سے نکلتے ہی کچھ دیر چلتے ہی ہمیں یہ سب اپنے لگنے لگتے ہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں قوم نہیں دیش واسیوں کی شرکت ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سماجی تانے بانے میں اپنا رول بڑھائیں۔ خواہ سبیلیں لگانی ہوں، کمبل تقسیم کرنے ہوں ، افطار کٹ بانٹنی ہو ںیا مالی تعاون دینا ہو، ہمیں سامنے مسلمان نہیں دیکھنا ہے۔ دیش واسیوں کو دیکھنا ہوگا ۔ فوٹو کھنچوانے سے پرہیز کریں گے تبھی آپ کی معتبریت بڑھے گی یاد رکھئے گا۔
جو لوگ تنظیمیں اور این جی اوز چلاتے ہیں، مین پاور والے لوگ ہیں،ان سے ایک گزارش ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو ایمس جیسے ادارے میں متعین کریں کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لاچار و بے بس مریضوں کی نگہبانی اور رہنمائی کریں۔ اگر پانچ دس لوگ یہ کام مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے کریں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی شبیہ بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ یہ مودی کا ہی زمانہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آئی ہے اور بچے یو پی ایس سی کے امتحانوں میں بھی اچھی تعداد درج کرا رہے ہیں۔سماجی تانے بانے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ سیاست کو نظر انداز کرنا ہوگااور سماجی رشتوں کو بڑھا وا دینا ہوگا، ساتھ ہی سیاسی و سماجی بیداری کے لیے بحث و مباحثہ کا در وا کرنا ہوگا ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]