خواتین کیلئے ریزرویشن جدوجہد کی کامیابی میں 94 برس لگے

0

خواتین کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ریزرویشن دینے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی ملک کی مکمل ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ہر شہری خوشحال نہ ہو اور نصف آبادی کو جائز حقوق نہ دیے جائیں تو پھر کس طرح ملک کی مکمل ترقی کی باتیں سوچی جا سکتی ہیں۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ وطن عزیز ہندوستان میں خواتین کے لیے ریزرویشن کی جدوجہد 1931 میں ہی شروع ہو گئی تھی لیکن بیگم شاہ نواز اور سروجنی نائیڈو جیسی خاتون لیڈروں نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی تھی کہ خواتین کو مردوں پر ترجیح دی جائے بلکہ ان کا موقف یہ تھا کہ سیاست میں دونوں کے لیے یکساں مواقع ہوں لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ اس سے دو برس پہلے ہی خواتین کے لیے جنوبی ہند سے آواز اٹھ چکی تھی۔ 1929 میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں ای پی راماسوامی پیریار نے تمام سرکاری نوکریوں میں خواتین کے لیے 50 فیصد ریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ پیریار کے مطالبے کی وجہ سے ہی 1931 میں سیاست میں خواتین کے لیے ریزرویشن کی مانگ اٹھی تھی یا اس کی وجہ کچھ اور تھی، البتہ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے خواتین کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ 1931 سے پہلے کیا جا چکا تھا، اس لیے خواتین کے لیے ریزرویشن کی جدوجہد 1929 سے ہی مانی جانی چاہیے۔ اس طرح 94 سال بعد اس جدوجہد میں کامیابی ملی ہے۔ خواتین ریزرویشن بل کے نفاذ کے بعد ملک کی عورتیں اس پوزیشن میں آجائیں گی کہ اپنی ہم جنس کے حالات کو سمجھتے ہوئے قوانین بنوا سکیں، قوانین میں ترمیم کرا سکیں۔ 1947 میں بھی خواتین کو ریزرویشن دینے کی بات اٹھی تھی لیکن یہ بات بات ہی رہ گئی۔ اس وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ اس وقت ایسے حالات نہیں تھے۔ خواندہ خواتین کی تعداد بہت کم تھی اورجو خواندہ تھیں، ان میں سے زیادہ ترمیں سیاست میں جانے سے دلچسپی نہیں تھی۔ گرچہ بعد میں ملک کی وزیر اعظم ایک خاتون لیڈر اندرا گاندھی کے بن جانے سے حالات میں تبدیلی کی امید کی جا سکتی تھی مگر کوئی تبدیلی اچانک نہیں ہوتی۔ دھیرے دھیرے ہی ہوتی ہے اور بڑی تبدیلی کے آنے میں بڑا وقت لگتا ہے، اس لیے 1971 میں خواتین کے حالات جاننے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی تو اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ برس دو برس میں رپورٹ آ جائے گی اور خواتین کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں ریزرویشن مل جائے گا۔ 1974 میں کمیٹی نے رپورٹ سونپی۔ اس کی یہ سفارش تھی کہ پنچایتوں اور بلدیات میں خواتین کے لیے سیٹیں مختص کی جائیں۔ 1988 میں ملک کے وزیراعظم راجیو گاندھی تھے۔ اس وقت ایک منصوبے کے تحت پنچایت سے پارلیمنٹ تک خواتین کو ریزرویشن دینے کی سفارش کی گئی اور اس سے یہ اندازہ ہوا کہ راجیو گاندھی یہ سمجھتے تھے کہ ملک کی ترقی کے لیے سیاست میں خواتین کا آنا نہایت ضروری ہے۔ 1993 میں آئین میں 73 ویں اور 74 ویں ترمیم کے ذریعے پنچایتو ںاور بلدیات میں خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹیں مختص کی گئیں جبکہ بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، کیرالہ، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں مقامی بلدیات میں خواتین کے لیے 50 فیصد ریزرویشن نافذ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1996، 1998، 1999، 2004، 2008، 2009، 2010 میں بھی خواتین کو ریزرویشن دلانے کے لیے کچھ نہ کچھ پیش رفت ہوتی رہی لیکن کامیابی 2023میں ملی ۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS