بہت کٹھن ہے ڈگر مہاراشٹر کی: صبیح احمد

0

صبیح احمد

حالیہ لوک سبھا انتخابات کے دوران مہاراشٹر ان ریاستوں میں شامل ہے جن پر لوگوں کی سب سے زیادہ نگاہیں ٹکی ہیں۔ اتر پردیش کے بعد مہاراشٹر میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ 48سیٹیں ہیں۔ کبھی کبھی اعداد و شمار بھی کہانی بتانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس بار مہاراشٹر کے سیاسی منظر نامہ نے ایک دلچسپ منظر پیش کیا ہے۔ انتخابات کے اعلان کے بعد سے وزیر اعظم نریندر مودی ریاست کے ایک درجن دورے کر چکے ہیں، اور امکان ہے کہ وہ 20 مئی یعنی مہاراشٹر میں پانچویں اور آخری مرحلہ تک، اگر زیادہ نہیں تو مزید نصف درجن دورے کریں گے۔ یہ دورے حالیہ انتخابات کے اعلان سے پہلے کے 12 مہینوں میں اتنی ہی تعداد میں دوروں کے علاوہ ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کے لیے مہاراشٹر ہمیشہ کی طرح پراسرار بنا ہوا ہے۔

گزشتہ 2 انتخابات میں ریاست میں بی جے پی اور شیوسینا کا مکمل غلبہ تھا۔ دونوں جماعتوں نے 2014 میں 48 فیصد ووٹ حاصل کیے اور 2019 میں 50 فیصد کا ہندسہ عبور کیا۔ اس غلبہ نے ریاست میں سیاسی مقابلے کے ڈھانچے کو بھلے ہی بدل دیا ہو، لیکن لوک سبھا کی جیت نے دونوں پارٹیوں کے ریاستی سطح کے عزائم کو بھی بے نقاب کر دیا۔ 1995 میں ریاست میں اقتدار کا ابتدائی ذائقہ حاصل کرنے کے بعد بی جے پی اور شیوسینا دونوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ 1999 کے بعد مہاراشٹر اسمبلی میں ان کے ہاتھ سے اقتدار نکل گیا۔ لیکن جب 2014 میں موقع آیا (اور پھر 2019 میں)، دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی قیمت پر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ حالانکہ 2019 کے ان کے ’بریک-اپ‘ نے کافی سرخیاں بٹوریں، لیکن 2014 کی لوک سبھا کی جیت کے بعد سے ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان کبھی بھی تعلقات سازگار نہیں رہے۔ انہوں نے 2014 کے اسمبلی انتخابات میں الگ الگ راستے اپنائے، لیکن انتخابات کے بعد اتحاد قائم کر لیا تھا۔ اس طرح مہاراشٹر میں مسابقتی سیاست کے ڈھانچے کے عدم استحکام کا آغاز 2014 میں ریاستی سیاست میں بی جے پی کے ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر اچانک عروج کے ساتھ ہوا۔ یہ سلسلہ 2019 کے اسمبلی انتخابات کے بعد بھی جاری رہا۔ شیوسینا اور این سی پی میں پھوٹ کے نتیجے میں ’اسمارٹ سیاست‘ نے فڑنویس اور بی جے پی کو واپسی کرنے میں مدد کی۔

سوال یہ ہے کہ ریاست میں واحد بڑی پارٹی بننے کے اولوالعزم سفر میں بی جے پی کو ان پیش رفتوں نے کس طرح متاثر کیا ہے؟ وہ 2022-23 کی سازشوں کے بعد بھی وزیراعلیٰ کا عہدہ حاصل نہیں کر سکی۔ لیکن اس کے حامی اس حقیقت سے تسلی حاصل کرسکتے ہیں کہ مہاراشٹر پر حکومت کرنے والی موجودہ حکومت کے پیچھے اصل طاقت بی جے پی تھی اور ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈپٹی سی ایم دراصل ’سپر سی ایم‘ ہوتا ہے۔ بی جے پی کے لیے دوسرا فائدہ یہ رہا کہ ریاست کی 2 مضبوط پارٹیوں میں تقسیم ہونے کے بعد اب اسے ایک وسیع سیاسی جگہ دستیاب ہوگئی ہے۔ تقسیم کے بعد این سی پی اور شیوسینا دونوں دھڑے کمزور ہیں، اصل پارٹیاں دوسرے دھڑے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے بھاگ دوڑ میں زیادہ الجھی ہوئی ہیں اور بی جے پی کے لیے خطرہ بننے سے قاصر ہیں۔ بی جے پی نے اپنی نئی سیاسی چال سے پورے منڈے کیمپ پر بھی فتح حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پارٹی نے پنکجا منڈے اور مہادیو جانکر کو ٹکٹ دے کر ایک اہم پیغام دیا ہے۔ اس کے علاوہ راویر سیٹ سے ایکناتھ کھڈسے کی بہو رکشا کھڈسے کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ بی جے پی نے کھڈسے کی ناراضگی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ پنکجا منڈے کا بیڈ لوک سبھا سیٹ سے ٹکٹ، دھنگر لیڈر مہادیو جانکر کا پربھنی سے الیکشن لڑنا اور سابق بی جے پی لیڈر ایکناتھ کھڈسے کی واپسی کا اشارہ محض اتفاق نہیں ہے۔ ان تینوں سے متعلق مناسب فیصلے لے کر بی جے پی نے پورے منڈے کیمپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھر بھی یہ نام نہاد سیاسی چالاکی بی جے پی کی مدد نہیں کر سکتی، کم از کم جہاں تک موجودہ لوک سبھا انتخابات کا تعلق ہے۔ پہلے سے ہی ریاستی حکومت کے اندر بی جے پی کو محدود حصہ داری پر قناعت کرنی پڑی ہے اور اقتدار میں حصہ داری کے لیے اپنے کئی وزارتی امیدواروں کو وزارتی کونسل سے باہر رکھنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اب دونوں اتحادیوں کو مطمئن رکھنے کے لیے بی جے پی کو کئی وفادار اور پرانے امیدواروں کو مایوس کرنے کا خطرہ بھی مول لینا پڑ رہا ہے۔

اس بار مہاراشٹر میں چیلنج کی سنگینی کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیراعظم نے مہاراشٹر میں صرف 5ریلیوں میں خطاب کیا تھا۔ بی جے پی کی گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم نے مہاراشٹر کے علاوہ شاذ و نادر ہی ایک ضلع میں خود کو دو بار پیش کیا ہے۔ یہ تمام حقائق ایک چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی کی قیادت کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ ریاست کو مقامی غیرمستحکم اتحاد کے بھروسے چھوڑنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے عملی طور پر بی جے پی کی مہم کی ذمہ داری خود سنبھال لی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت کو ممبئی میں سہ فریقی حکومت پر کتنا کم اعتماد ہے۔ اس ناقص اعتمادی کی کئی وجوہات بھی ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ بی جے پی، ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا اور اجیت پوار کے زیرقیادت این سی پی کی اپنے آپ کو ایک مربوط سیاسی قوت کے طور پر پیش کرنے میں نااہلی ہے۔ 3 جماعتی اتحاد ہر قدم پر لڑکھڑاتا رہا اور مقررہ وقت میں بمشکل سیٹوں کی تقسیم کو حتمی شکل دے سکا۔ کچھ معاملات میں امیدواروں کا اعلان اس وقت کیا گیا جب نامزدگی کی آخری تاریخ ختم ہورہی تھی۔ دوسری وجہ امیدواروں کا انتخاب ہے۔ بی جے پی جب مہاراشٹر میں اپوزیشن میں تھی تو وہ ٹھاکرے کی شیو سینا اور پوار کی این سی پی کے ’بدعنوان‘ رہنماؤں کے بارے میں شور مچاتی رہتی تھی۔ ان میں سے نصف درجن سے زیادہ رہنما مرکزی ایجنسیوں کی تفتیش کے دائرے میں ہیں، جن میں سے کچھ پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں۔ جیسے ہی ان لیڈروں کو بی جے پی میں پناہ مل گئی، ان میں سے تقریباً سبھی بی جے پی یا اس کے اتحادی پارٹیوں کی طرف سے میدان میں ہیں، جس سے ’واشنگ مشین‘ کے الزام کے ثابت ہونے میں کافی تقویت ملی ہے۔ ریاستی بی جے پی قیادت کو اپنے کیڈروں کے سخت سوالات کا سامنا ہے، جنہیں ایسے امیدواروں کی جانب سے ووٹ مانگنا مشکل ہو رہا ہے، جن کے لیے چند ماہ قبل مناسب جگہ جیل تھی۔ تیسری وجہ سینئر پوارکا مقابلہ کرنے میں جونیئر پوار کی ناقص کارکردگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے 2 اعتبار سے غلط اندازہ لگایا: اجیت پوار کی طاقت کا اور شرد پوار کی استقامت کا۔ اجیت پوار ابھی تک صرف ’ایک حلقہ کے لیڈر‘ – بارامتی – کے طور پر محدود ہو کر رہ گئے ہیںجہاں سے ان کی بیوی سنیترا الیکشن لڑ رہی ہیں، جبکہ سینئر پوار پوری ریاست میں سرگرم ہیں، کیڈروں اور اپوزیشن کے اندر جوش اور ولولہ پیدا کر رہے ہیں۔

ایک اور نکتہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ ہے بی جے پی کی قریبی ساتھی سے بدل کر سخت چیلنج پیش کرنے والی ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا۔ سیاست میں روایتی حریف سے لڑنا دوست سے دشمن بن جانے والے سے لڑنے کے مقابلے آسان ہوتا ہے کیونکہ کسی وقت اقتدار میں رہتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کی تمام خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ادھو ٹھاکرے کے لوگوں کو رنگ میں چیلنج کرنے سے بظاہر ہچکچا رہی ہے۔ حالانکہ بی جے پی 28 سیٹوں پر مقابلہ کر رہی ہے، لیکن اس نے ٹھاکرے کی شیو سینا کے ساتھ براہ راست مقابلہ محض4 حلقوں تک ہی محدود رکھا ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ بی جے پی کے لیے ادھو کے امیدواروں کو ہندوتو کے ہتھوڑے سے مارنا تھوڑا مشکل ہو رہا ہوگا کیونکہ ان کا رنگ بھی تو بھگوا ہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS