بہت کٹھن ہے ڈگر پن گھٹ کی

0

عطابنارسی
گجرات اسمبلی انتخابات میں محض چند ایام اور باقی ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں رائے دہندگان کو لبھانے اور اپنے حق میں کرنے کے لئے مختلف ایجنڈوں ،وعدوں اور ترقیاتی اسکیموں کا اعلان کر رہی ہیں۔اس بار بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے بھی بہت مضبوطی کے ساتھ اپنی موجودگی درج کرانے میں مصروف ہے۔اپنے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری ، مفت بجلی کے وعدے اور دہلی ماڈل کو لے کر میدان میں کود پڑی ہے۔گجراتی عوام کے سامنے دہلی کا کیجریوال ماڈل خوب خوب پیش کر رہی ہے۔گجرات انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شمولیت نے گزشتہ چار دہائیوں سے اپنی پیٹھ جمانے والی بی جے پی کے لئے اس بار مشکلات پیدا کر رہی ہے۔اب تک بی جے پی کا مقابلہ گجرات میں کانگریس پارٹی سے تھا جسے بی جے پی نے ہندو اکثریت کی ذہن سازی کرتے ہوئے ہندو مخالف اور مسلمانوں کی حامی پارٹی کے طور پر ثابت کر دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ انتخابی چال ہر بار آسانی سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس بار کانگریس کی الگ حکمت عملی اور عام آدمی پارٹی کی جارحانہ سیاست نے بی جے پی کی راہیں مشکل کر دی ہیں۔
سہ رخی مقابلہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی نے پھر ایک بار اپنی پرانی روش اختیار کرتے ہوئے فرقہ وارانہ کھیل شروع کر دیا ہے ۔کیونکہ وہ دیکھ رہی ہے کہ ترقیاتی ایجنڈے فیل ہو رہے ہیں،گزشتہ طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے کے باوجود عوام کومکمل طور پربنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہے ۔مہنگائی اور بے روزگاری پر جواب دینا بی جے پی لیڈروں کے لئے مشکل ہو رہا ہے ۔ بی جے پی نے اپنے مرکزی وزراء سے لے کر بی جے پی حکمراں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور تمام سینئر لیڈروں کو گجرات کے انتخابی میدان میں اتار رکھا ہے۔ مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت سے لے کر انوراگ ٹھاکر،یوگی آدتیہ ناتھ اور ہیمنت بسو سرما تک سب ہی گجرات کے لوگوں کو اپنے اپنے طریقے سے لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے خواب دکھا رہے ہیں۔27سال کی دور حکومت میں کئے گئے ترقیاتی کاموں کو شمار کراتے نہیں تھک رہے ہیں ۔گجرات ماڈل کے نام پر ملک کے سامنے جو ماڈل بی جے پی پیش کر رہی ہے حقیقی معنوں میں تصویر اس کے بر عکس ہے۔یہ درست ہے کہ گجرات میں صنعتوں کے جال بچھائے گئے ،بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری ضرور کی ہے لیکن اس کا فائدہ صرف گجرات کے پچاس فیصد متمول لوگوں کو ہی ہوا ہے اور مزید گجرات کے پچاس فیصد غریب ،مزدور اور پسماندہ اور قبائلی طبقات کو دو جون کی روٹی کا انتظام کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔حالیہ موربی پل حادثہ گجرات کی اس ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کا ڈھنڈورہ وزیر اعظم سے لے کر تمام وزراء پیٹ رہے ہیں۔موربی پل حادثے میں 134افراد کی موت ہو گئی لیکن کارروائی کے نام پر صرف خانہ پری کی گئی۔اصل ذمہ داروں کو صاف طور پر بچا لیا گیا ۔اس حادثے کے بعد ریاستی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور گجرات عدالت عالیہ بھی اس لاپروائی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکام کو سخت پھٹکار لگائی ہے ۔انتخابات سے عین پہلے اس حادثے نے بی جے پی کے گجرات ماڈل کی پورے ملک کے سامنے قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کے اندر شدید بے چینی نظر آ رہی ہے۔
گجرات کی اس حقیقت سے بی جے پی کے ٹاپ لیڈر اچھی طرح واقف ہیں۔اس لئے وہ اپنے خمیر کی طرف لوٹ رہے ہیں اور فرقہ وارانہ سیاست کا آغاز کر دیا ہے ۔گزشتہ دنوں گجرات میں انتخابی ریلیوں کے دوران آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسو سرما کا آفتاب اور شردھا والکر کا ذکر کرنااورمرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا گجرات کے 2002کے مسلم نسل کشی کو سبق سکھانے سے تعبیر کرنا اس بات کا غماز ہے۔وزیر داخلہ امت شاہ نے گجرات میں کھیڑا ضلع کے مہودہا میں ایک ریلی کے دوران خطاب کرتے ہوئے2002کی مسلم نسل کشی کو سبق سکھانے سے تعبیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ریاست میں مکمل امن قائم ہو گیا ہے ۔2002کا ذکر کر کے وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے ’سماج دشمن عناصر‘ گجرات میں تشدد میں ملوث ہوتے تھے اور کانگریس پارٹی ان کی حمایت کرتی تھی لیکن 2002میں سبق سکھائے جانے کے بعد ان عناصر نے اپنی سر گرمیوں کو ترک کر دیا ہے۔انہوں نے ہندو اکثریتی ووٹروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پولرائزیشن کی سیاست کو مہمیز دیتے ہوئے کانگریس پر نشانہ سادھا اورکہا کہ گجرات میں2002 میں اس لئے فسادات ہوئے کیونکہ مجرموں کو طویل عرصے تک کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔ اور ایک طبقہ کو دوسرے کے خلاف اکساتی تھی جس کی وجہ سے انہیں تشدد میں ملوث ہونے کی عادت پڑ گئی تھی لیکن انہیں سبق سکھانے کے بعد 2002سے 2022 تک اب مکمل امن قائم ہے اور کبھی کرفیو لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ مزید بی جے پی گجرات میں اقتدار میں واپسی پر ’یکساں سول کوڈ‘ نافذ کرنے کا بھی دعویٰ کر رہی ہے۔اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا ہے کہ اقتدار میں آئے توگجرات میں یکساں سول کوڈ نافذ کریں گے۔2002کی مسلم نسل کشی کا ذکر کرکے امت شاہ نے ایک طرف گجرات میں اقلیتوں کو دھمکی دی ہے اورمسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف اکثریتی طبقہ میں اقلیتوں سے خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
بی جے پی لیڈروں کی جانب سے مسلسل ایسے فرقہ وارانہ اور نفرت آمیز بیانات دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ بی جے پی کا ترقیاتی منصوبہ فیل ہو چکا ہے اور بی جے پی اب اپنے سیاسی ترکش کے آخری تیر کو آزمانے پر مجبور ہو گئی ہے ۔یہ حقیقت بھی ہے فرقہ وارانہ ،نفرت اور تشدد کی سیاست بی جے پی کی خمیر میں شامل ہے اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ صرف ترقیاتی دعوؤں اور وعدوں پر ہی کوئی الیکشن لڑ سکے۔ورنہ کیا سبب ہے کہ اب تک ترقی اور وکاس کی گنگا بہا رہے تھے اور جب ووٹنگ میں محض چند دن رہ گئے تواچانک وزیر داخلہ کو 2002کا ’سبقــــ‘یاد آنے لگا،یکسا ں سول کوڈ کا خواب دکھانے لگے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS