زین شمسی
تو 24 سال کے بعد کانگریس پارٹی کو گاندھی پریوار کی صدارتی ترجیحات سے آزادی ملی۔ کھڑگے کانگریس کے نئے صدر منتخب ہوگئے ۔ تاہم ان کے ساتھ الیکشن میں قسمت آزمائی کر رہے ششی تھرور نے انتخابی عمل پر غیر شفافیت کا سنگین الزام عائد کرتے ہوئے خصوصاً اترپردیش کے کانگریس ووٹرس کا ووٹ خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ وہ شروع سے ہی انتخابی عمل کو جانبدار قرار دیتے رہے اور اس بات کا ذکر بھی کرتے رہے کہ چونکہ کھڑگے سونیا گاندھی کے نامزد امیدوار ہیں، اس لیے وہ کسی کی توجہ کے لائق ہی نہیں۔ خیر جو بھی ہو کانگریس نے اندرونی الیکشن کراکر بی جے پی کے اس الزام سے خود کو الگ دکھانے میں کامیابی حاصل کرلی کہ ان کی پارٹی پریوار واد سے دور ہوگئی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو بی جے پی کے کانگریس مکت مشن میں کانگریس کا گاندھی پریوار سے مکت ہونا اس مشن کی اضافت بھر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیمار سونیا گاندھی اور بھارت جوڑو کے گھوڑے پر سوار راہل گاندھی اور پارٹی میں باقی بچے کچھ بوڑھے کانگریسیوں کے درمیان کھڑگے کانگریس کی دَشا اور دِشا کو کیسے مضبوطی دے پائیں گے۔ گزشتہ سات آٹھ برسوں میں مودی حکومت نے سیاست کا رخ بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ عوام کو سچائی سے زیادہ مہنگائی میں مزہ آنے لگا ہے۔ سیاست کے ساتھ ساتھ قومی ادارے بھی حق پرستی سے منکر ہوچکے ہیں۔ کرشمائی سیاست زوروں پر ہے۔ کانگریس کو کھڑگے جیسے کم گو اور نرم دل صدر کی ضرورت تھی یا تھرور جیسے جادوگر کی، اس کا فیصلہ تو ہوگیا مگر سیاست کو پرکھنے والے کہتے ہیں کہ سوال جس زبان میں ہو جواب اسی زبان میں دینا چاہیے۔ تھرور میں کچھ اہلیت مودی اور شاہ کی جادوبیانی والی نظر آتی ہے جو عوام کو سپنے بیچنے کا ہنر جانتے ہیں۔
یہ دور سپنے بیچنے کا ہے ایسا سپنا جسے دیکھنے کے لیے پرسکون نیند کی بھی ضرورت نہیں۔ بھکمری کے107ویں پائیدان پر جانے کے باوجود وشوگرو بننے کا سپنا۔ بے روزگاری کی طویل قطار میں کھڑے ہوکر سودیشی روزگار پانے کا سپنا۔ بلقیس بانو اور دیگر عورتوں کی عصمت لوٹنے والوں کو اچھے لوگ قرار دیے جانے کا سپنا۔ سادھوی پرگیہ جیسی دہشت گرد کو پارلیمنٹ پہچانے کا سپنا۔ فرضی الزامات جھیل رہے طلبا اور نوجوانوں کو جیل میں بند کر کے قانون و انتظامیہ کو مضبوط بنانے کا سپنا۔ افواہوں اور نفرت پھیلانے والے میڈیا کو بے لگام چھوڑ دینے کو حق اطلاعات کی ترقی بتانے کا سپنا۔ ایسے ہزاروں سپنے جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں مگر اسے ابھیمان اور بھارتیتا کا لبادہ اوڑھا کر عوام کے سامنے پروسنے کی جادوگری کمال کر گئی ہے۔ اب جیتے گا وہی جو اس سپنے کو ختم کر کے اس سے بھی سنہرے سپنے بازار میں لے کر آئے گا۔ بھارت توڑنے کا نسخہ کیمیا اتنا کارگر ہے کہ بھارت جوڑنے کی مہم کو دیوانے کا خواب کہا جانے لگا ہے۔ ایسے میں کانگریس کو کئی محاذ پر خود کو ثابت قدم رکھنا ہوگا۔ کھڑگے کے انتخاب سے پریوار واد کا ٹھپہ ضرور ہٹا ہے مگر کئی محاذ پر کانگریس کی جوابدہی ابھی باقی ہے۔
سب سے بڑا چیلنج توووٹرس کا ہی ہے کہ علاقائی پارٹیوں کے پھیلائے گئے جال سے ووٹرس کو کیسے نکالا جائے اور اگر وہ نکل بھی جاتے ہیں تو کانگریس کے پاس کس مفاد کے تحت جائیں گے۔
سیاست بدلی ہے تو سماج میں بھی تبدیلی کی آہٹ سنائی دے رہی تھی۔ خاص کر دلتوں کا سماج متحد ہوتا نظر آرہا ہے۔ دہلی میں بدھ مت میں سکونت اختیار کرنے کا قصہ اتنا سنجیدہ ہوگیا کہ عام آدمی پارٹی کے چہرے سے بھی نقاب اڑا کر لے گیا۔ لکھنؤ میں بدھا فاؤنڈیشن کا ہجوم بھی بہت کچھ کہتا دکھائی دیا۔ وہیں پٹنہ میں اینٹی منووادی کی لہر اس سلسلے کو بڑھا لے گئی۔ اس سے قبل ناگپور میں سنگھ کے ہیڈکوارٹر کا گھیرا صرف کہانیاں نہیں ہوسکتیں۔ دراصل دلتوں اور پچھڑوں کو رہنما تو بہت ملے لیکن کچھ کو چھوڑکر سب نے دلتوں کا ہی ساتھ چھوڑ دیا۔ وہیں آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو ایک بھی سیاسی لیڈر نصیب نہیں ہوا مگر اس کے ووٹر سیاسی طور پر بیدار رہے اور مظلوموں کی حمایت کرنے والی پارٹیوں کو یک مشت ووٹ دیتے رہے۔ مسلم قوم کو اس بات کے لیے مبارک باد دینا چاہیے کہ ہیڈلیس ہونے کے باوجود اس کا ذہن کام کرتا رہا ہے۔ بس اس قوم کی بے بسی کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی بیداری کا فقدان ہے۔ یہ قوم اگر تعلیم پر توجہ مبذول کرتی تو آج بھارت کا بے تاج بادشاہ ہوسکتی تھی۔
دودن قبل اسی تعلیمی بیداری یا تعلیمی تحریک پر زور دار بحث دیکھنے کو ملی۔ موقع تھا یوم سر سید کا۔ چھوٹے بڑے تمام شہروں میں پروگرام کا انعقاد کیا گیا اور تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر گفتگو کی گئی۔ مسلمانوں کو پڑھنا چاہیے۔ پڑھوگے تو بڑھوگے کے فارمولہ کو آگے بڑھانے کی تجویزیں اور دلیلیں سامنے آئیں۔ اس سے قبل ہی کچھ دینی مدارس سے یہ صدا بھی بلند ہوئی کہ عصری تعلیم اور جدید علوم قوم کو مضبوط بنا سکتے ہیں، یعنی وہ بات جو ایک سوا سو سال قبل سرسید کہہ رہے تھے اب قوم کے علما بھی کہنے لگے ہیں۔ کاش یہی سمجھ اس وقت ہی آگئی ہوتی تو نقشہ کچھ اور ہی ہوتا، اب دیر بھی ہوگئی اور بہت دور تک آبھی گئے۔ مگر کہتے ہیں کہ جب جاگو تبھی سویرا، تو اب بھی وقت ہے کہ مسلمان تعلیم کے ہتھیار سے اپنے سارے مسائل حل کرلیں یا پھر ملک کی الجھاؤ پسند سیاست سے گھبرا کر مایوسی کو مقدر کر لیں۔
بحران میں موقع ہوتا ہے۔ سات سو سال کی مسلم حکومت میں ہندوؤں نے تعلیم کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ نہ لڑے اور نہ ہی پریشان ہوئے۔ لالو یادو کے دور میں جب دلتوں اور پچھڑوں کا بول بالا ہوا تو اعلیٰ ذات کے لوگوں نے تعلیم پر اکتفا کیا اور خاموشی کے ساتھ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے رہے۔ مسلمانوں کو یہ کام1947کے بعد سے ہی کرنا تھا مگر وہ فضولیات میں الجھتے رہے۔ انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ملک کاآئین انہیں مضبوط کرچکا ہے۔ اس مٹی سے انہیں کوئی بے دخل نہیں کرسکتا، ہاں اس بہانے کچھ دنوں تک سیاست چلائی جا سکتی ہے مگر ملک کا آئین بدلنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے بے خوف رہیں اور پڑھتے رہیں۔
کانگریس نے سچر کمیٹی میں مسلمانوں کی بدحالی کا رونا رویا تھا۔ ان مسلمانوں کا جو انہیں ہی ووٹ دیتے آئے تھے اور تب تک دیتے رہے جب تک نرسمہاراؤ کی حکومت میں بابری مسجد شہید نہیں کر دی گئی۔ آج کانگریس خود اپنے وجود کا رونا رو رہی ہے۔ وقت نے مسلمانوں کو بے وقعت کیا تو مسلمانوں کے سہارے برسوں حکومت کرنے والی کانگریس کو بھی بے وقعت کر دیا ہے۔ اب وہ اپنے وجود کی لڑائی خود کو بدل کر لڑنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کو بھی اپنے وجود کی لڑائی خود کو بدل کر لڑنی ہوگی۔ انہیں مسلکوں کا پاجامہ اتار کر مسلمانوں کی پینٹ پہننی ہوگی۔ مسجدوں میں پینٹ والوں سے ان کا تجربہ سننا ہوگا اور کالجز میں پا جامہ والوں کی ذہنیت کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ یہ مشاہدہ کا وقت ہے۔ اس وقت کا احترام کیجیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]