کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

0

عارف عزیز(بھوپال)
غالبؔ انیسویں صدی کے شاعر ہیں لیکن انہیں بیسیوں صدی میں پڑھا اور سمجھا گیا نیز مختلف زبانوں میں اس قدر لکھا گیا کہ دنیا کے کم شاعروں کو الگ الگ زاویوں سے اتنا پرکھا گیا ہوگا۔ اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اگلی صدی تک جاری رہنے کی امید ہے۔
غالبؔ سے پہلے میرؔ پیدا ہوئے جو اپنی عشقیہ شاعری کے ساتھ زندہ ہیں۔ نظیرؔ کو اپنی تہذیب کے عشق نے سندِ عام عطا کردی، انیسؔ حق و باطل کی کشمکش کے ترجمان کی حیثیت سے یاد رکھے جاتے ہیں، بعد میں اقبالؔ کو اُن کی ہمہ جہتی نے ایک بلند مقام پر فائز کر دیا لیکن غالبؔ کی مقبولیت کا راز اُن کی انسان دوستی اور درد مندی میں پوشیدہ ہے، اُن کے خطوط کو ہی لے لیجئے، ان میں تضاد تو ہے، کئی مرتبہ پریشانیوں کے لئے وہ مصالحت کر لیتے ہیں، جھک جاتے ہیں لیکن اُن کے تحریری خطوں کو آپ جتنا پڑھیں گے غالبؔؔ کی انسانیت نوازی اور کردار کی خوبی کے قائل ہوتے جائیں گے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے غالبؔ ہمیں اپنے ناسازگار حالات کے باوجود دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی روپے پیسے سے، کبھی اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے، وہ مسائل زدہ انسانوں کی مدد کرنا پسند کرتے ہیں، انسان دوستی کا یہ رجحان اِس لئے فطری ہے کہ غالبؔؔ نہیں جانتے تھے کہ کبھی یہ خط عام لوگ بھی پڑھ سکیں گے لہٰذا اپنے خطوں میں انہوں نے جو رقم کیا اُس کی بڑی اہمیت ہے اور یہ اُن کا مصنوعی رویہ نہیں ہے۔ آج انسان دوستی ایک پسندیدہ موضوع ہے لیکن سو سال پہلے ہیومنزم (Humanism) کا اظہار بطور فیشن یا پروپیگنڈے کے نہیں ہوسکتا تھا، اِس لئے میرے خیال میں غالبؔؔ کا یہ فطری رجحان ہے۔ حالانکہ شعراء سے رقابت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اُن کا اعتراف نہ کرنے کے غالبؔؔ بھی مرتکب ہوئے، لیکن اپنے چھوٹوں کی ہمت افزائی، تعریف اور اُن کو آگے بڑھانے میں وہ پیش پیش رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر میر مہدیؔ کو غالبؔؔ نے جو خط لکھے اُس میں وہ کہتے ہیں کہ ’تم تو بالکل مجھ جیسی عبارت لکھنے لگے ہو اور اب میرے برابر ہو‘، یہ رویہ ایک فراخ دل انسان کا ہوسکتا ہے۔ میں مکرر کہوں گا کہ آج غریبوں کی مدد، انسانیت نوازی، مسلم اور غیر مسلم میں قربت پر بہت گفتگو ہوتی ہے، یہاں تک کہ مختلف زبانوں کے ادب میں ان تصورات کو نمائندگی دی جارہی ہے لیکن غالبؔؔ نے جب کہا تھا کہ ’میرے یہاں نصرانی، ہندی، مسلم سب برابر ہیں، میں تو سب کو دوست سمجھتا ہوں‘ تو اُس وقت اِن خیالات کے جاوبیجا اظہار کا چلن عام نہیں تھا۔
غالبؔؔ کے اشعار میں انسان دوستی یا آدم پرستی کی تلاش اور بھی آسان ہے۔ انہوں نے ایک شعر میں کہا ہے ؎
بسکہ دشوار ہے، ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
میرے خیال میں انسانیت کی تلاش سے زیادہ اہم ہے آدمی کو تسلیم کرنا اور آدمی کے امکانات سے، اُس کی خوبیوں سے، خامیوں سے آگاہ ہونا، جس کو ہم ارضیت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس میں دنیوی زندگی کی ساری رعنائیوں، رنگینیوں اور بلندیوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ ارضیت شاعری میں سب سے پہلے غالبؔؔ کے یہاں نمودار ہوتی ہے اور اس میں آدمی کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے، اُس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی ہے۔ انسانی ذہن کی شوخی اور خلاّقی کا اظہار ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک نوع کی وسیع مشربی پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آدمی کو اُس کے ہر رنگ میں پہچاننے کی بھرپور کوشش بھی، اِس کے لئے روایت سے استفادہ کرتے ہوئے، روایت پر قناعت نہ کرنے کا جذبہ اور اپنی راہ نکالنا مزید ہے۔
اسی لئے غالبؔؔ کی توجہ انسان کے بنیادی مسائل پر مرکوز رہی، انسان کا دکھ اور سکھ، اُس کی کامیابی اور ناکامی، انسان کی حرماں نصیبی، غالبؔؔ کے دل و دماغ پر حاوی رہی اور اشعار کے وسیلہ سے وہ عام انسانوں کی فکر پر دستک دیتی ہے، کیونکہ انسانی مسائل کا حل بدلتا رہتا ہے، اس کی ماہیت نہیں بدلتی، صرف شکل تبدیل ہوجاتی ہے۔
جس طرح ایک ماہر فنکار ستار کے تمام سازوں کو چھیڑتا ہے اور ہر ایک تار سے وہ خاص سُر نکالتا ہے جو اس کے اندر سوئے ہوئے ہیں اور اِن سُروں کے میل جول سے نغمے کی ایک دنیا پیدا کرتا ہے، اُسی طرح غالبؔؔ انسانی جذبات کے اتار چڑھاؤ کو انسانی مزاج کی بدلتی ہوئی کیفیات کو، انسانی تقدیر کے پیچ و خم کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ غالبؔؔ کے یہاں کیا کچھ نہیں ہے؟ زندگی کے المیے کا احساس ہے اور حسرت غم اور ناکامی کی چبھن ہے، انسان کی عظمت کا یقین ہے اور اُس زندگی کے بے اندازہ امکانات کا اعتراف بھی ؎
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
اور زندگی کا وہ ہمہ گیر فلسفیانہ تصور بھی جس میں غم اور خوشی، کامیابی اور ناکامی دھوپ چھاؤں کی طرح مل جاتے ہیں اور شاعر اِس کھیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ایک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
غالبؔؔ کو قبولِ عام کی مسند پر بٹھانے میں اُن کی انسان دوستی کا بڑا حصہ ہے، غالبؔؔ جتنے وسیع مشرب انسان تھے، انسان کی عظمت و فضیلت کے اُتنے ہی قائل تھے، اُن کے یہاں ایسے بے شمار اشعار مل جائیں گے۔ جہاں انسان کی عظمت و برنائی کا اظہار ہوتا ہے ؎
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں
انسان کی بڑائی کا یہ تصور دوسرے شعراء کے یہاں نہیں ملتا، جہاں تک غالبؔؔ کے کلام کی ہیئت کا تعلق ہے، اس میں مصوری و نغمگی شیر و شکر ہیں، کہیں مریضانہ افسردگی پیدا نہیں ہوتی، زندگی کے بارے میں ایک نوع کی تازگی محسوس ہوتی ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ غالبؔ عمر بھر مصیبتوں سے دوچار رہے لیکن اُن کی ہنسی بلکہ ٹھٹھول جاری رہا، اِس طرح انہوں نے ناسازگار زندگی میں لوگوں کو جینے کا سلیقہ دیا اور یہ بھی بتایا کہ آلام میں آدمی کیسے مسکراتا ہے؟
غالبؔؔ کے کلام کی حرکت و تازگی کا اظہار اُن کے بعض الفاظ کے بار بار استعمال میں ملتا ہے، خاص طور پر تمنا اور شوق جیسے الفاظ کو انہوں نے سلیقہ سے برتا ہے، صرف ایک شعر ؎
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔؔ کو زندگی کے امکانات کا اچھا عرفان تھا، وہ بعض اوقات یاسیت کا شکار نظر آتے ہیں لیکن امید کا دریا اُن کے اندر موجزن رہتا ہے، اسی لئے زندگی سے انہوں نے اپنی توقعات کو کبھی ختم نہیں ہونے دیا، اگر یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ دائمی آرزو مندی غالبؔؔ کا مستقل موضوع ہے اور اُن کے یہاں کثرت سے اِس کی مثالیں ملتی ہیں ؎
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
خوں ہوکے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
اقبالؔ نے غالبؔؔ پر نظم کہی ہے، اِس میں اُن کی عظمت کو تخیل کی دین قرار دیا ہے، کیونکہ جب تخیل و جذبہ مل جاتے ہیں تو اُن میں بے پناہ قوت و تاثیر پیدا ہوجاتی ہے، غالبؔ کی عظمت اِس میں ہے کہ انہوں نے تخیل و جذبہ دونوں کو یکجا کر دیا ہے، یہ معمولی کام نہیں اِس کے لئے ایک خاص ریاضت کی ضرورت ہے، جو غالبؔؔ کے ہم عصروں میں نہیں ملتی، اقبالؔ نے ضرور حرکی عنصر اور انسان کی فضیلت پر زور دیا ہے۔
غالبؔؔ کی انسان دوستی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ کہنہ روایات کے خلاف اور نئے عہد کے نقیب تھے، اُن کی فکر رسا مسلم حاکموں کی فرسودگی کے بجائے انگریز حکمرانوں کی صنعتی و سا ئنسی ترقی سے ہم آہنگ ہونا چاہتی تھی، اِس نئے میلان کا اندازہ ذیل کے اشعار سے ہوتا ہے ؎
ادائے خاص سے غالبؔؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے
ہوں گرمیٔ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
وہ انسان دوست ہی نہیں اِس کے وکیل بھی ہیں ورنہ یہ شعر نہیں کہتے ؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
رشید احمد صدیقی کے بقول غالبؔؔ نے اُردو شاعری کو ایک ذہن دیا لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ذوق و ذہن دونوں دئے ہیں۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS