تنازع کا بڑھنا ٹھیک نہیں

0

ہماریکئی ریاستوں کے باؤنڈری تنازعات ہیں اور آج سے نہیں، برسوں سے ہیں، البتہ آسام-میزورم سرحدی تنازع نے 26 جولائی، 2021 کو جو رنگ دکھایا، وہ آزادی کے بعد سے آج تک نہیں دیکھا گیا تھا اور نہ اس کی امید کی گئی تھی۔ 26 جولائی کے تنازع نے خونیں شکل اختیار کرلی۔ فائرنگ ہوئی۔ اس میں آسام پولیس کے 6 جوانوں کی جانیں چلی گئیں۔ آسام کے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے وزیراعلیٰہیمنت بسوا شرما نے ٹوئٹ کیا تو میزورم کے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لیے وزیراعلیٰ زورامتھنگا نے ٹوئٹ کیا۔ ٹوئٹر پر الزام اور جوابی الزام سے ایسا لگتا ہے کہ تنازع نئے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، آسام کے بی جے پی کے رکن اسمبلی کوشک رائے نے کہا ہے، ’میزورم یہ نہ بھولے کہ اگر ہم ضروری سامان اور چیزوں کو لانے لے جانے کی اجازت نہ دیں تب ان کے لوگ بھوکے مر سکتے ہیں۔ہم سرکار یا پھر پولیس کی نہیں سنیں گے۔ ہمیں اپنے لوگوں کی موتوں کا بدلہ لینا چاہیے۔ ہمیں پوری طرح سے اقتصادی ’’ناکہ بندی‘‘ یقینی بنا دینی چاہیے۔‘دوسری طرف میزورم کے خوراک ، سول سپلائی اور صارفین معاملوں کے وزیر کے-لال رِن لیانا نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آسام کی وادی براک کے لوگوں کی ’’اقتصادی ناکہ بندی‘‘ سے میزورم میں ضروری اشیا کی سپلائی پہلے کی طرح متاثر نہیں ہوگی، کیونکہ ریاستی سرکار نے دو دیگر پڑوسی ریاستوں سے تیل، رسوئی گیس اور چاول جیسی اشیا منگوانی شروع کر دی ہیں۔‘ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ میزورم کی 164کلومیٹر کی باؤنڈری آسام سے تو 95 کلومیٹر کی منی پور اور 66 کلومیٹر کی تریپورہ سے لگتی ہے، اس لیے لال رِن لیانا کو اطمینان ہے کہ اگر آسام کی طرف سے ’اقتصادی ناکہ بندی‘ کی جاتی ہے تو اس کا اثر میزورم پر نہیں پڑے گا مگر کسی کو میزورم اور آسام کے تناز ع کے بارے میں معلوم نہ ہواور اس کی نظر سے کوشک رائے اور کے-لال رِن لیانا کے بیانات گزریں تو کیا وہ یہ سمجھ پائے گا کہ یہ بیانات ہندوستان کی ہی دو ریاستوں کے لیڈروں کے ہیں؟ تنازع کی وجہ سے آسام پولیس کے 6 جوانوں کی جانیں جانا بدقسمتی کی بات ہے مگرتنازع کو ختم کرنے کی کوششوں کے بجائے بڑھانے کی وجہ بننا،انتقام کی باتیں کرنا زیادہ بدقسمتی کی بات ہے۔ اس طرح کی باتوں سے کون سے راشٹرواد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، یہ سمجھ سے پرے ہے۔
میزروم اور آسام کے درمیان خطے کا تنازع بہت پرانا ہے۔ پہلی بار اسے بنگال ایسٹرن فرنٹیئر ریگولیشن ایکٹ، 1873 کے تحت 1875 میں سلجھانے کی کوشش کی گئی، دوسری بار 1933 میں۔ فی الوقت تنازع کی وجہ 1933 میں ہوئی علاقوں کی تقسیم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آسام اور میزورم دونوں ہی ریاستوں میں این ڈی اے کی حکومت ہے۔ آسام میں وزیراعلیٰ بی جے پی کا ہے اور میزورم میں وزیراعلیٰ میزو نیشنل فرنٹ کا۔ اس کے باوجود دونوں ریاستوں میں تنازع اس حد تک بڑھ چکا ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تنازع کی نوعیت کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آسام اور میزورم کے وزرائے اعلیٰ کون سی نظیر قائم کرنا چاہتے ہیں؟ آسام پولیس کے 6 جوانوں کا تنازع کی نذر ہوجانا کیا ایک غلط روایت کی شروعات نہیں ہے؟ کیا یہ ایک ایسی شروعات ہے جو راجیہ واد کو منفی روپ میں پیش کرتی ہے؟ ان باتوں کے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ علاقے کی تقسیم کی وجہ سے آسام اور میزورم کا ہی تنازع نہیں ہے، تنازعات اور بھی ہیں۔ آسام اور اروناچل پردیش کا تنازع سپریم کورٹ میں زیر غور ہے تو آسام اور ناگالینڈ کے تنازع پر بھی سپریم کورٹ کو فیصلہ سنانا ہے۔ آسام کا میگھالیہ سے بھی تنازع ہے۔ ان دونوں کے درمیان 12 جگہیں متنازع ہیں۔ علاقے پر ہریانہ اور ہماچل پردیش کے درمیان تنازع کا حل ابھی نہیں نکلا ہے۔ مہاراشٹر، کرناٹک کے بیلگام اور دیگر علاقوں پر دعوے کرتا ہے جبکہ ان دعوؤں کو مسترد کرنے کے لیے کرناٹک کی اپنی منطق ہے۔ مرکز کے زیر انتظام لداخ اور ہماچل پردیش کے درمیان لیہہ-منالی قومی شاہراہ پر واقع سرچو تنازع کی وجہ ہے۔ ان تنازعات کے علاوہ ندیوں کے پانی کی تقسیم پر بھی کئی ریاستوں کے مابین تنازع ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تنازعات اب تک قائم کیوں ہیں؟ کیا ہمارے لیڈروں کو یہ احساس نہیں کہ چین نے ہمارے علاقوں پر نظریں گاڑ رکھی ہیں؟ آسام اور میزورم کے تنازع کو ہلکے پن سے نہیں لیا جانا چاہیے۔ اس کے اور متذکرہ سبھی تنازعات کے حل کے لیے ایماندارانہ کوشش کی جانی چاہیے۔ مودی حکومت نے 2015 میں بنگلہ دیش سے لینڈ باؤنڈری ایگریمنٹ کرنے میں تاریخی کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے ریاستوں کے تنازعات ایسے نہیں جو وہ حل نہ کرسکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS