آسان نہیں ہے ایک کے مقابلے ایک اُمیدوار کا فارمولہ

0

ایم اے کنول جعفری

سیاست کی دنیامیں ایسے لوگ کم ہی ہوئے ہیں،جنہوں نے نمایاں کامیابی اوراعلیٰ قیادت سے ملک کا نظام چلانے کے باوجوداقتدار کی عنان دوسرے لوگوں کے حوالے کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے ایسا کرکے دوسرے لوگوں کو ملک کی قیادت اور عوام کی خدمت کا موقع تو دیا ہی، خود کو سیاست سے علیحدہ کرکے خوشگوار زندگی بسرکرنے کو فوقیت دی۔ نیوزی لینڈ کی ہر دل عزیز وزیراعظم جیسنڈا کیٹ لاریل آرڈرن ایسی ہی کسوٹی پر کھرا اترنے والی اعلیٰ خیالات کی زندہ مثال ہیں۔دنیا کی سب سے کم عمر خاتون سربراہ ریاست آرڈرن 26 اکتوبر 2017سے 25جنوری2023تک نیوزی لینڈ کی وزیراعظم رہنے کے علاوہ 2008-2010 کے دوران صدر کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔انہیں عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد برطانیہ میں نئی جاب مل گئی۔ برطانیہ کے شہزادے ولیم نے اپنے کام، لگن اور دیانت داری کی وجہ سے عالمی شہرت یافتہ جیسنڈا آرڈرن کو ’ دی ارتھ شوٹ پرائز بورڈ آف ٹرسٹیز‘ میں اہم ذمہ داری دیتے ہوئے اُن کے تجربے اور اعلیٰ قیادت سے مستفیض ہونے کی بات کہی ہے۔قربانی کا ایسا جذبہ سبھی رہنماؤں میں پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ جنگ کی طرح سیاست میں بھی ہر دو فریق کے مابین آسانی سے ہار قبول نہیں کی جاتی۔امریکہ میں دو مرتبہ برسراقتدار رہنے کے بعد صدر کے عہدے کا انتخاب لڑنے پر پابندی ہے، لیکن برصغیر میں اس پر قدغن نہیں ہے۔ جمہوری نظام میںعمر رسیدہ افراد بھی اپنے کمالات دکھانے کے لیے سیاسی میدان میں آخر تک ڈٹے دیکھے جاتے ہیں۔
آزادی کے بعد کانگریس لگاتار سب سے زیادہ مدت 1947سے 1977تک ملک کے اقتدار پر قابض رہی۔ یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی کے رہنما راج نارائن اندرا گاندھی کے خلاف رائے بریلی سے الیکشن لڑا کرتے تھے۔ انہوں نے اندرا گاندھی پر انتخاب میں بدعنوانی کے متعدد الزام لگاتے ہوئے ہائی کورٹ الٰہ آباد میں درخواست داخل کی۔ اس پر ہائی کورٹ کے جج جسٹس جگ موہن لال سنہا نے 12جون 1975 کو اندرا گاندھی کو قصوروار مان کر نہ صرف الیکشن منسوخ کردیا،بلکہ اُن کے چھ برس تک چناؤ لڑنے پر بھی پابندی لگا دی۔ فیصلے کا مطلب وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا تھا۔ اندرا گاندھی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر پارٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ سنجے گاندھی کے مشورے پر اندراگاندھی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس وی آر کرشنا ائیر نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر مکمل پابندی سے اجتناب کرتے ہوئے انہیں وزیراعظم کے عہدے پر قائم رہنے کی اِس شرط پر اجازت دی کہ وہ حتمی فیصلہ آنے تک رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے ووٹ نہیں دے سکیں گی۔ ملک بھر میںپہلی بار بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو ئے۔ اندرا گاندھی نے مظاہروں کو روکنے اور حزب اختلاف کی آواز دبانے کے لیے 25جون 1975کی رات میں صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمدسے ہنگامی اعلامیے پر دستخط کرا لیے۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔ آل انڈیاریڈیو کی نشریات میں اس کی وجہ بدامنی بتائی گئی۔ جے پرکاش نارائن، اٹل بہاری واجپئی،لال کرشن اڈوانی، مرارجی دیسائی، مرلی منوہر جوشی اورراج نارائن سمیت حزب اختلاف اور سیاسی جماعتوں کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ سنسرشپ کا اطلاق ہونے سے خبروں کو سرکاری نظریے کے مطابق شائع کرنے پر مجبور کیا گیا۔کئی سینئر صحافیوں کو بھی سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا۔تقریباً 11لاکھ افراد گرفتار کیے گئے۔ خفیہ محکمے کی غلط اور مس گائڈ کرنے والی رپورٹ کے بعد21مارچ 1977 کو نہ صرف ایمرجنسی ہٹالی گئی،بلکہ عام انتخابات کا اعلان بھی کردیا گیا۔ رہا ہوکرجیلوں سے باہر آئے سیاسی لیڈران میں زبردست غصہ تھا۔ لوک نائک جے پرکاش نارائن کی کوششوں سے حزب اختلاف جماعتوں کے رہنما اور کارکنان آپسی اختلاف بھول کر متحد ہوگئے اور ’جنتا پارٹی‘ نام سے نئی پارٹی تشکیل دی۔ یہ پہلا موقع تھا، جب کانگریس کو اقتدار سے باہر کا راستہ دکھانے کے لیے قومی اور علاقائی پارٹیاں متحد ہوئیں۔اس سے قبل کانگریس کے دیوقامت وجود کے سامنے دیگر سیاسی پارٹیاں ٹک نہیں پاتی تھیں۔ کانگریس کو اُمید تھی کہ اُسے ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا فائدہ ملے گا اور وہ پھر سے ملک کی باگ ڈور اپنے پاس رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی،لیکن ایمرجنسی کے دوران ہوئی زیادتیوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ جے پی کے مشورے کے بعد ہر ایک پارلیمانی سیٹ پر کانگریسی اُمیدوار کے مقابلے ’ جنتا پارٹی‘ کا ایک اُمیدواراُتارنے کا دانشمندانہ فیصلہ لیا گیا۔ سیاسی جماعتوں نے کانگریس کو شکست دینے کے لیے نجی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر جی جان سے الیکشن لڑا۔ ایک کے مقابل ایک اُمیدوار کے فارمولے نے کانگریس کے خواب کو چکناچور کردیا۔جنتا پارٹی نے زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے295سیٹوں پر جیت درج کی،جبکہ کانگریس کے حصے میں154نشستیں آئیں۔ ملک میں پہلی بار غیر کانگریسی حکومت کی تشکیل ہوئی اور مرارجی دیسائی وزیراعظم بنائے گئے۔ کانگریسی اُمیدوار کے مقابلے ایک کینڈیڈیٹ اُتارنے کا فارمولہ تو کامیاب رہا، لیکن آپسی مفاد کی بنا پرجنتا پارٹی کا اتحاد زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکا۔ بھان متی کا کنبہ ٹوٹتے ہی 1979 میں مرارجی حکومت گر گئی۔ 1980 کے انتخابات میں اندرا گاندھی کی قیادت والی کانگریس (آئی) نے مستحکم سرکار دینے کے نام پر زبردست واپسی کی۔ اُس نے529 میں سے 353 سیٹیں حاصل کرکے پھر سے حکومت بنائی۔ 2004 میں کانگریس نے کئی دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے یونائیٹڈ پروگریسو الائنس( یو پی اے) کی تشکیل کر انتخابات میں حصہ لیا۔ کانگریس کو 145 اور بی جے پی کو 138 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ یوپی اے نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں حکومت بنائی۔2009کے انتخابات میں کانگریس نے 206 اور بی جے پی نے116سیٹیں حاصل کیں۔ یو پی اے دوبارہ اقتدار میں آئی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ پھر سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 2014 میں نریندر سنگھ کی قیادت میں بی جے پی نے282سیٹوں پر فتح حاصل کی،جبکہ کانگریس کو سب سے خراب مظاہرہ کرتے ہوئے صرف 44 نشستوں پر اطمینان کرنا پڑا۔ 2019 میں بی جے پی نے303سیٹوں پر قبضہ کیا،جبکہ کانگریس نے 52سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کے صدر راہل گاندھی امیٹھی سے چناؤ ہار گئے۔وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی تیسری مرتبہ فتح کی نئی عبارت لکھنے کے لیے بیتاب ہے۔حالانکہ، بی جے پی کے سامنے جہاں 2024کا سیاسی قلعہ فتح کرنے کا زبردست چیلنج ہے، وہیں کانگریس کی قیادت میں غیر بی جے پی جماعتوں کا مشترکہ محاذ بناکر مودی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس بابت کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے،راہل گاندھی،عام آدمی پارٹی کے رہنما و دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال، ٹی ایم سی لیڈر ومغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور سماج وادی پارٹی کے صدر و سابق وزیراعلیٰ اکھلیش کمار یادو سمیت کئی دیگر لیڈران سے گفتگو کرکے ماحول بے حد سازگارہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ نتیش کمار کے مطابق بی جے پی کو شکست دینے کے لیے 1977اور2004کے ایک کے بدلے ایک اُمیدوار کے فارمولے کو اپناتے ہوئے 500 سیٹوں پر بی جے پی اُمیدوار کے خلاف حزب اختلاف محاذ کا ایک اُمیدوار کھڑا کیا جائے گا۔ دقت یہ ہے کہ مغربی بنگال، آندھراپردیش،تلنگانہ، کیرالہ اور دہلی وغیرہ میں کانگریس کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھنے والی سرکاریں ہیں۔اگر ملکارجن کھڑگے اور نتیش کمار ٹی ایم سی،عام آدمی پارٹی اور کے سی آر سمیت سبھی کو ساتھ لے کر بی جے پی کے خلاف سیکولر متبادل محاذ بنانے اور ایک کے مقابلے ایک اُمیدوار اُتارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بی جے پی کا تیسری مرتبہ سرکار بنانے کا خواب پایۂ تکمیل تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS