مدن سبنویس
آج کوئلہ بحران معیشت کے لیے بڑی تشویش کا موضوع ہے۔ اس مسئلہ کی تین جہتیں ہیں۔ پہلی بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلہ کی کمی، جو صنعتی پیداوار میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب محسوس ہورہا ہے کہ صنعتیں پھر بڑھ رہی ہیں، جیسا کہ اگست کے آئی آئی پی(انڈیکس آف انڈسٹریل گروتھ یعنی انڈسٹریل ڈیولپمنٹ انڈیکس) کے اعدادو شمار میں نظر آرہا ہے۔ تہواری موسم پہلے ہی شروع ہوچکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ لمبے وقت تک بجلی جانے میں ایسے وقت میں پیداوار کم ہوگی، جب ڈیمانڈ میں اضافہ ہورہا ہوگا۔
دوسری، اس ماہ کے آخر تک خریف کی فصل کی کٹائی ختم ہوگی اور ربیع کی بوائی شروع ہوجائے گی، یعنی کسانوں کو آبپاشی کے لیے بجلی کی ضرورت ہوگی۔ تب حکومتوں کو ترجیحات طے کرنی ہوں گی کہ کس سیکٹر کو بجلی ملنی چاہیے۔ گندم ربیع کی اہم فصل ہے، جس پر نظر رکھنی ہوگی۔ کسان تحریک نے پہلے ہی پنجاب کو متاثر کیا ہے اور یہ مدت اہم ہے۔
تیسری، گھروں کی صورت حال ہے۔ کچھ ریاستوں نے ڈیمانڈ اور سپلائی کا توازن قائم رکھنے کے لیے تھوڑی بہت لوڈ شیڈنگ شروع کی ہے۔ یعنی بجلی کٹوتی گھروں کو متاثر کرے گی، جسے آج شاید اضافہ کے لیے بڑا مسئلہ نہ سمجھا جائے، حالاں کہ لوگوں کو تکلیف ہوگی۔ لیکن اگر اس کٹوتی میں اضافہ ہوا تو اس کا پروڈکٹیوٹی پر اثر ہوگا کیوں کہ آج سبھی ادارے مخلوط طرزعمل اپنارہے ہیں، جہاں کچھ ورکرس گھر سے کام کررہے ہیں۔ بجلی نہ ہونے پر کام متاثر ہوگا۔
اس کمی کا سبب بالکل سیدھا ہے۔ مانسون کے فوراً بعد کوئلہ کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق رہا ہے۔ عام طور پر مانسون کے دوران کانکنی کم ہوتی ہے کیوں کہ اس دوران کھدائی، نقل و حمل اور کوئلہ کو اسٹور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مانسون کے بعد ہمیشہ اکتوبر میں دباؤ رہتا ہے کیوں کہ کانکنی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے اور اس لیے بجلی کمپنیاں 20-30دنوں کا کوئلہ جمع رکھتی ہیں۔ خبروں کے مطابق کئی پلانٹس میں کچھ دنوں کا ہی اسٹاک بچا ہے۔
حساب میں گڑبڑی خاص طور پراس لیے ہوئی کیوں کہ مانسون لمبا چلا۔ اس لیے کول انڈیا نے کانکنی ٹال دی اور صرف بنیادی مقدار میں ہی کانکنی ہوئی۔ ساتھ ہی پاور پلانٹ اسٹاک میں دستیاب کوئلہ استعمال کرتے رہے۔ چوں کہ معیشت نے واپسی کی، جس سے بجلی کی ڈیمانڈ میں کافی اضافہ ہوا اور مسئلہ بڑھتا گیا۔ ایکسچینج پر قیمتیں 20روپے فی یونٹ سے بھی اوپر چلی گئیں، جس سے کمپنیوں کو نقصان ہورہا ہے۔
حکومت نے یقینی دہانی کرائی ہے کہ پیداوار سب سے اعلیٰ سطح پر ہے۔ لیکن اس سے صرف روزمرہ کی سپلائی ہوتی ہے اور اس میں کوئی بھی خلل پڑنے سے بجلی کی کمی ہوگی۔ یہ مشکل سے گزارا ہونے والی صورت حال ہوگی، جب تک کہ اسٹاک پھر سے نہیں بن جاتا۔ اسٹاک بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے بجلی کمپنیوں کو کوئلہ درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان نے آتم نربھر پالیسی اور ری نیوایبل انرجی سورسز(renewable energy sources)(ری نیو ایبلس) میں اضافہ کی کوششوں کے تحت کوئلہ کی درآمد میں مسلسل کٹوتی کی ہے۔ اب کوئلہ کا مسئلہ عالمی ہوگیا ہے اور قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔
عالمی سطح پر چین کوئلہ کا سب سے بڑا پروڈیوسر اور کنزیومر ہے۔ چین ونٹر اولمپکس کے لیے کوئلہ بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ ساتھ ہی چین سبز معیشت بننے کے لیے کوئلہ کی کانکنی کو کم کررہا ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کے ساتھ سیاسی ایشو بھی درآمد میں آڑے آرہے ہیں۔ چین بھی کمی سے جدوجہد کررہا ہے اور حکومت نے بجلی دینے میں گھروں کی جگہ صنعتوں کو ترجیح دینے کے لیے کہا ہے۔
عالمی معیشت کی تیز ریکوری کے ساتھ بجلی اور کوئلہ کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ کوئلہ جیسے روایتی توانائی کے ذرائع کا متبادل بننے میں ری نیو ایبلس کی ابھی محدود صلاحیت ہے۔ اس سے کوئلہ کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہندوستان کوئلہ کی درآمد میں اضافہ کرتا ہے تو قیمت مزید بڑھے گی۔ الیکٹرک سیکٹر اب بھی ٹیرف میں تبدیلیوں سے نبردآزما ہے اور قیمت بڑھنے کے ساتھ ٹکے رہنا مشکل ہوگا۔
یہاں حل یہ ہے کہ کوئلہ درآمد کرکے سپلائی یقینی بنائی جائے۔ ہمیں بجلی کو ویریئبل ٹیرف(variable tariff) پر بھی لانا ہوگا، جہاں صارفین زیادہ قیمت کی ادائیگی کریں، جیسے وہ پٹرول-ڈیژل کے لیے کرتے ہیں۔ یہ ہندوستان میں مشکل ہے کیوں کہ بجلی سیاسی ایشو ہے اور کوئی بھی ریاستی حکومت قیمت میں اضافہ کرنا نہیں چاہے گی کیوں کہ اس سے ووٹنگ پیٹرن پر اثر ہوگا۔ مرکز نے بجلی پیدا کرنے والوں کو پھر سے اسٹاک بننے تک ضرورت پوری کرنے کے لیے 10%درآمد کرنے کی صحیح صلاح دی ہے۔یہ تبھی ہوگا جب وہ لاگت کا کچھ بوجھ پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیز پر ڈال پائیں گے جو فی الحال نقصان میں ہیں اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو وقت پر ادائیگی نہیں کرپارہی ہیں۔
جو بھی ہو، اس سے قبل کہ صورت حال بے قابو ہوجائے، ہندوستان کو حل تلاش کرنا ہوگا۔ ابھی سمجھا جارہا ہے کہ مسئلہ عارضی ہے۔ مسئلہ دوبارہ نہ آئے، اس کے لیے واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ری نیو ایبلس کے ذریعہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا ضروری ہے جو فی الحال مہنگا ہے۔ حالاں کہ لاگت آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔ اس میں پروڈکشن لنکڈ انسینٹو(پیداوار سے جڑاانسینٹو) مدد کرسکتے ہیں، نہ صرف سولر پینل کی پیداوار بڑھانے میں، بلکہ لاگت کم کرنے میں بھی۔ ایسا درمیانی مدت کا منصوبہ(medium term plan) ہونا ضروری ہے۔
(مضمون نگار کیئر ریٹنگس میں چیف اکنامسٹ ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)