اسرائیل کی ہٹ دھرمی

0

اس وقت پوری دنیا کی توجہ روس-یوکرین تنازع پر مرکوز ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا توانائی بحران سے دوچار ہے اور اب دنیا غذائی بحران کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، اس دوران اسرائیل نے فلسطینیوں کے گرد گھیرا اور تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ دو روز قبل امریکی کانگریس کی رکن کوری بش سمیت 15ممبران کانگریس نے امریکی سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ مغربی کنارے کی ہیبرون وادی کی ایک چھوٹی آبادی مسافر یطا کو اجاڑنے اور مسمار کرنے کی کارروائی سے روکے۔ یہ آبادی1200افراد پر مشتمل ہے جو یہاں کے آبائی شہری ہیں، یہ خاندان صدیوں سے ان علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
بین الاقوامی برادری اسرائیل کو کارروائی سے باز رہنے کی اپیل کررہی ہے مگر اسرائیل کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔
اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکار اداروں اور ورکروں نے اسرائیل کو اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے پرزور طریقہ سے آواز اٹھائی ہے اور صہیونی ریاست اور اس کے حواریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنائیں، مگر اسرائیل نے حسب سابق عالمی برادری کی اپیلوں کو نظرانداز کیا ہے۔ عالمی برادری کی اس اپیل کو نظرانداز کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت نے اسرائیلی حکام کو عرب بدوؤں کی اس قدیم آبادی کو مسمار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
خیال رہے کہ یہ بستی مغربی کنارے میں ایک فوجی رینج کے قریب ہے۔ مغربی کنارے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام علاقہ ہے اور اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس کے حساس ترین فوجی اڈے کے قریب عرب آبادی کی موجودگی ملک کے دفاع کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
اسی مئی کے اوائل میں ہائی کورٹ نے عرب بدوؤں کی اسی عرضی کو رد کردیا تھا جس کے تحت اس بستی کی مسماری کی کارروائی پر روک لگانے کی اپیل کی تھی۔ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ جنوبی ہیبرون کی یہ بستی فائرنگ زون 918ہے اور نوٹیفائڈ ایریا ہے۔ یعنی حفاظتی نقطہ نظر سے عرب بدوؤں کی آبادی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہاں کی فلسطینی آبادی کئی دہائیوں سے اسرائیلی فوجی کارروائی کو روکنے کے لیے عدالت کا سہارا لیے ہوئے تھی مگر اس فیصلہ کے آنے کے بعد غریب فلسطینیوں کی امید بالکل ختم ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے عدالتی نظام نے اب نہ صرف حکام کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے بلکہ اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ فوج کو اس علاقہ میں ٹریننگ لینے کی اجازت ملی ہے۔ بڑا اعتراض یہ ہے کہ انسانی حقوق کو نظرانداز کرکے فوجی اختیارات کو اہمیت اور فوقیت دی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ترجیحات کیا ہیں۔ اگر یہ بستی مسمار کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
امریکی ایوان کانگریس کے ترقی پسند ممبران پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ اس معاملہ میں مداخلت کرکے اسرائیل سرکار کو آبادی مسمار کرنے کی حرکت سے روکے۔
امریکی دفتر خارجہ کو لکھے گئے ایک مکتوب میں اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس معاملہ میں سخت ترین سفارتی دباؤ ڈالے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکے۔
گزشتہ دو ماہ سے اسرائیل مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے اور یروشلم و غازہ میں فوجی کارروائیاں تیز کیے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کے عظیم ترین مقدس مقامات میں سے ایک بیت المقدس کے اندر داخل ہوکر خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ 2021کے وسط میں غازہ میں سیکڑوں مقامات، اسکولوں، اسپتالوں کے علاوہ اس کثیر منزلہ عمارت کو ایک ساعت میں مسمار کردینا جس میں میڈیا کے دفاتر اور نشریاتی مراکز قائم تھے، عوام کی یادداشت میں باقی ہے، حال ہی میں الجزیرہ کی رپورٹر کو گولی مارنے، اس کے جنازے کی بے حرمتی وغیرہ ، وہ بڑے سانحات ہیں جن پر امریکی حکام اس قدر بے چین نہیں ہیں، جتنے ہونے چاہئیں۔
یہ دور شفافیت کا دور ہے، سب کچھ صاف صاف دکھتا ہے، الیکٹرانک میڈیا اگر چھپاتا ہے تو سوشل میڈیا واقعات اور سانحات کو بے نقاب کردیتا ہے۔ روس کی یوکرین پر جارحیت کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کی تیاری کی جارہی ہے، روس کے جنگی مظالم کے لیے وہاں کی اعلیٰ ترین قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بات بھی کی جارہی ہے مگر اسرائیل نے جو انسانیت کے خلاف مظالم کیے ہیں اور طویل عرصہ سے کرتا آرہا ہے، اس پر کوئی لب کشائی نہیں کررہا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS