اسرائیل کا اندرونی سیاسی عدم استحکام

0

اسرائیل میں جب سے بنجامن نیتن یاہو کی قیادت والی شدت پسند پارٹیوں کی سرکار برسراقتدار آئی ہے، وہاں امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔ اسرائیل کے اندر عدالتی اصلاحات کے نام پر جوکھیل کھیلا جارہا ہے اس کے خلاف عام اسرائیلی برسرپیکار ہے اور پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت اورحمایت کے باوجود اہل اسرائیل نہیں چاہتے کہ سرکار کی یہ اصلاحات نافذ ہوں۔ اسرائیلیوں کی اکثریت جوکہ بہت سرگرم اور ان نام نہاد اصلاحات سے ناراض ہے، خاموش بیٹھنے کوتیار نہیں ہیں۔ ہر ہفتے کے آخری ایام یعنی سنیچراوراتوارکو اسرائیل میں ان اصلاحات کے خلاف زوردار مظاہرے ہورہے ہیں۔گزشتہ 75سال میں اسرائیل میں ایسے احتجاج کبھی نہیں دیکھے گئے۔ تل ابیب کی سڑکوںپر جس منظم انداز میں یہ احتجاج کئے جارہے ہیں ان سے یہ نہیں لگتا کہ عام شہری کسی بھی طریقے سے حکومت کے آگے جھک جائیںگے۔ ایک بڑے طبقے کی رائے ہے کہ ان قوانین اور نام نہاد اصلاحات کے نفاذ کا مقصد موجودہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوںپر فائز افراد کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے، کیونکہ اسرائیلی حکومت کے کئی وزیر جن میں موجودہ وزیراعلیٰ بنجامن نیتن یاہو بھی شامل ہیں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ مقدمات کرپشن کولے کر ہیں اورکچھ معاملات قوانین کی خلاف ورزیوں کو لے کر عائد کئے گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس صورت حال نے اسرائیل کی موجودہ حکومت کی پول کھول دی ہے جوکہ مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ موجودہ حکومت اسرائیل کے پانچ سال کے سیاسی عدم استحکام کے بعد معرض وجود میں آئی تھی اور اس سے قبل چار سال کی مدت میں پانچ عام انتخابات میں یہودی ریاست کے اقتصادی اور سیاسی نظام کو متزلزل کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک متنازع طریقے سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والا ملک اپنے قیام کی آٹھ دہائیاں پوری ہونے سے قبل ہی اس قدر شدید بحران سے دوچار ہوجائے تو دنیا بھر کے وہ تمام طبقات جو آنکھ بندکرکے ارض فلسطین میں اورمسلمانوں کی مقدس ترین مقامات اور سرزمین میں قائم حکومت کو حمایت دے رہے ہیں، ان کو تکلیف محسوس ہورہی ہے۔ ایک بڑے طبقے کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک مضبوط جمہوریت ہے جوکہ خارجی اور اندرونی دبائو کو برداشت کرنے اور خطے کے تمام ملکوں کی مخالفت کے باوجود قائم ہے اور پچھلے دنوں مختصر مدت میں جب کئی مرتبہ حکومتیں بنیں اور گریں اس سے یہ لگتا تھا کہ شاید اسرائیل کی ریاست تاش کے پتوںکی طرح بکھر جائے گی، مگر وہاں کا سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ ان تمام زلزلوں اور طوفانوںکو برداشت کرتا ہوا آج بھی برقرار ہے۔
امریکہ اسرائیل کی جمہوری نظام کی تائید کرتا ہے اوراس کو ہر طریقے کی حمایت دیتا ہے۔ اسی ظاہری جمہوریت کی بنیاد پر مغربی ممالک بطور خاص امریکہ یہودی ریاست کو اقتصادی، سفارتی،فوجی اور سیاسی مدد فراہم کر رہے ہیں، مگر نئی حکومت نے اپنے کئی لیڈروںکی گردن بچانے کے لئے اس طرح کے اقدام کئے ہیں جو کئی ملکوں کے حلق سے نہیں اتر رہا ہے۔ امریکہ کئی مرتبہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کی نکتہ چینی کر چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ موجودہ قیادت اپنے مفادات کے لئے اسرائیل کی عدلیہ کوکمزورکر رہی ہے اور عدلیہ کے ذریعہ مقننہ اور عاملہ پر جو نگرانی یعنی Checks and Balance عائد کی گئی ہے اس کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ خیال رہے کہ پچھلے مہینے اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مذکورہ اصلاحات پر نظرثانی کے لئے اپیل کو سماعت کے لئے قبول کرلیا ہے۔ یہ قدم ان معنوںمیں کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ دومرتبہ ان اصلاحات کومنظوری دے چکی ہے۔ کئی حلقوںمیں اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ان اصلاحات پر نظرثانی کے لئے عرضی کوقبول کرنا مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تصادم کا راستہ کھول سکتا ہے۔ خاص طورپر کئی حلقوں اور سپریم کورٹ میں اعلیٰ ججوں کے قیام میں گورنمنٹ کا عمل دخل بڑھنے سے عدالت کی غیرجانبداری اور آزادی کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ برقرار ہے۔ ان نام نہاد اصلاحات کے خلاف اسرائیل کے تقریباً تمام طبقات میں ناراضگی ہے۔ بنجامن نیتن یاہو کے سیاسی مخالفین ، مذہبی گروپ، ٹیکنیکل سیکٹر کے ماہرین، فیکٹریوںکے مزدور، امن پسند رضاکار اور یہاں تک کہ فوج کا ایک بڑا طبقہ اس کے حق میں نہیں ہے کہ یہ اصلاحات نافذ کی جائیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج میں ان اقدام کے خلاف شدید ناراضگی ہے۔ اس کا مظاہرہ کئی مرتبہ کیا جاچکا ہے۔ فوجوںکی ناراضگی ایسے ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، جس کی بنیاد ہی عسکری طاقت پر رکھی ہو۔
نیتن یاہو حکومت میں شامل کئی حلیف پارٹیوں اور لیڈروںکا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ لازمی ہے۔ مذہبی شدت پسند پارٹیاں مسلسل یہ بات کہہ رہی ہیں کہ ایک مضبوط جمہوریت والے ملک اسرائیل میں غیرمنتخب ججوںکی تقرری اور منتخب لیڈروں و عہدیداران پر بالادستی جمہوری روح کے منافی ہے۔ جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنی کھال بچانے کے لئے ان اصلاحات کا سہارا لے رہے ہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کا حالیہ تنازعات اس وقت سامنے آیا تھا جب سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے قریبی ساتھی Aryeh Deri کو کابینہ میں شامل کرنے سے اس لئے روک دیا تھا کہ ان کے خلاف ٹیکس ادا نہ کرنے کے معاملات تھے اور اس میں ان کو مجرم قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود نیتن یاہو ان کو وزیر بنانے پر بضد تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS