غزہ پر اسرائیلی حملے جاری، مزید 183 فلسطینی شہید

0
غزہ میں ریکارڈ تعداد میں بچوں کو طبی امداد کی ضرورت ہے
غزہ میں ریکارڈ تعداد میں بچوں کو طبی امداد کی ضرورت ہے

غزہ(ایجنسیاں): عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے جاری رہے، النصیرات کیمپ پر اسرائیلی حملے میں فلسطینی صحافی آد الرواغ سمیت کم از کم 11 فلسطینی شہید ہو گئے، گزشتہ 24 گھنٹوں میں شہادتوں کے تعداد 183 سے متجاوز ہو گئی۔خان یونس میں الاقصیٰ یونیورسٹی، النصر، الامل اور الخیر اسپتالوں کے قریب شدید لڑائی جاری رہی جہاں اسرائیلی فوج کی جانب سے شدید گولہ باری اور فائرنگ کی گئی۔اسرائیلی فورسز کی جانب سے الامل اسکول کو گھیرے میں لے لیا گیا جبکہ امداد ملنے کے منتظر فلسطینیوں پر بھی گولہ باری کی گئی۔

دوسری جانب حزب اللہ نے اسرائیلی اسپائے ڈوم کو نشانہ بنانے کی ویڈیو جاری کردی ہے۔یاد رہے کہ 3روز پہلے فلسطینی مزاحمت کاروں کے جوابی حملے میں اسرائیلی فوج کے انجینئرنگ یونٹ کے 21 اہلکار ہلاک ہوئے تھے، ان ہلاک فوجی اہلکاروں کی تدفین کے موقع پر غم سے نڈھال ایک اسرائیلی فوجی کا بھائی اسرائیلی وزیر بینی گینٹز پر پھٹ پڑا اور اس نے قبرستان میں ہی گینٹز پر حملہ آور ہونے کی کوشش بھی کی جس کی ویڈیو العربیہ اردو پر شیئر کی گئی تھی۔بھائی کے غم سے چور شخص چلا چلا کر کہنے لگا’تمہیں جنگ ختم کرنا ہوگی، میرا بھائی کسی وجہ سے نہیں مرا، یہ تمہاری چھیڑی گئی جنگ کا ایندھن بنا ہے‘۔

فیصلے پر شدید مایوسی ہوئی، عدالت نے اسرائیل کو بمباری اور زمینی حملے روکنے کا حکم کیوں نہیں دیا، فلسطینی شہری غزہ کے فلسطینیوں نے عالمی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناکام عدالت قرار دیا۔الجزیرہ کے مطابق غزہ میں فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صرف امداد کافی نہیں ہے بلکہ انہیں دیرپا جنگ بندی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ انہیں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی جس میں اسرائیل کو چار ماہ سے جاری خوفناک بمباری اور زمینی حملے بند کرنے کا حکم ہی نہ دیا گیا۔

عالمی عدالت نے فیصلے میں اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا حکم دیا ہے تاہم جنگ بندی اور غزہ میں تمام فوجی سرگرمیاں بند کرنے کی کوئی بات تک نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 7 اکتوبر سے غزہ میں 26 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید اور تقریباً 19 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مایوس ہیں لیکن حیران بالکل نہیں۔ کیونکہ انہیں نہ عالمی برادری اور نہ ہی عالمی نظام انصاف پر اعتماد ہے جو اب تک غزہ میں خونریزی کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ان میں وسطی غزہ کے دیر البلاح میں واقع الاقصیٰ شہداء اسپتال کے باہر موجود 54 سالہ احمد النفر بھی شامل ہیں، جنہوں نے بتایا،“اگرچہ میں بین الاقوامی برادری پر بھروسہ نہیں کرتا، لیکن مجھے ایک چھوٹی سی امید تھی کہ شاید عدالت غزہ میں جنگ بندی کا فیصلہ دے گی، لیکن فیصلہ سن کر میری ساری امیدیں دم توڑ گئیں، یہ ناکام عدالت ہے۔

احمد النفر 5 بچیوں کے والد ہیں جن کا خاندان اب گھر ہو چکا ہے اور اس وقت سینکڑوں دیگر فلسطینیوں کے ساتھ اسپتال کے صحن میں پناہ لے رکھی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کوئی بھی جنگ بندی نہیں کرواسکتا۔ سب لوگ سنجیدہ کوشش کیے بغیر ہماری تباہی و بربادی دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں امداد یا خوراک نہیں جنگ کا خاتمہ اور غزہ میں اپنے گھروں کو واپسی چاہتے ہیں۔20 نومبر کو اسرائیلی فورسز نے انہیں گھر سے گرفتار کر لیا تھا، وہ 24 گھنٹے تک اسرائیلی حراست میں رہے، جس کے بعد انہیں غزہ شہر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ النفر نے کہا کہ وہ اپنی بیوی اور پانچ بیٹیوں کے لیے شدید پریشان ہیں جو ان خوفناک حالات میں غزہ شہر میں میرے بغیر تنہا ہیں، میری بچیاں اپنی ماں کے ساتھ اکیلی ہیں، اس طرح کے خوفناک حالات میں مجھے ان کے ساتھ ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے بھاگنے کے راستے بند کرادیے ہیں: فلسطینی وزیر اعظم

النفر نے بتایا کہ اسرائیلی حراست میں ان سے پوچھ گچھ اور بدسلوکی کی گئی، بری طرح مارا پیٹا گیا، اور پھر رہا کرکے جنوب کی طرف جانے کا حکم دیا گیا۔النفر نے بتایا کہ انہوں نے بیٹیوں کو فون پر کہا کہ عدالت کا فیصلہ“مثبت اور ہمارے حق میں ”ہوگا جس میں جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ آئے گا۔ لیکن میں غلط تھا، میں بہت اداس اور مایوس محسوس کر رہا ہوں. مار دو ہم سب کو، اسرائیل غزہ پر ایٹم بم گرائے اور ایک ہی بار ہمیں اس عذاب سے نجات دلائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS