اسرائیل کی جارحیت، فلسطینی مزاحمت اور عالمی رائے عامہ

0

اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان 75سال سے چلی آرہی کشمکش میں ایک پچھلے ایک ہفتہ میں ایک اور سانحہ کا اضافہ ہوگیا۔ فلسطین میں ایک اور مسلح گروپ اسلامک جہاد نے اسرائیل کی جیل میں بند اس کے کارکن قادر عدنان کی موت کے بعد سخت رد عمل ظاہر کیا اور مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی میں کافی پرتشدد واقعات دیکھنے کو ملے۔ پچھلے چند دنوں میں غزہ کے جنگجوئو اسرائیل کی فوج میں جس طرح راکٹ داغے گئے اس سے اسرائیل کے ایک بڑے طبقے میں تشویش پیدا ہوئی اور ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جب اسرائیل کے لوگ اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ پناہ گاہوں میں پناہ لیتے ہوئے دیکھائی دیے۔ ذرائع کے مطابق اسلامک جہاد کی راکٹ حملوں میں اگرچہ اسرائیل میں کوئی بڑا جانی مالی نقصان نہیں ہوا مگر اس کے نفسیاتی اثرات ضرور مرتب ہوئے جبکہ فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 33افراد کی موت کی اطلاع ہے۔ اس میں تقریباً ایک ہزار غزہ کے مکین بے گھر ہوئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں 950لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور 50مکانات بالکل تباہ ہوئے ہیں۔ فلسطین کے محکمہ صحت کے اعداوشمار کے مطابق غزہ میں 190لوگ زخمی ہوئے تھے جبکہ اسلامک جہاد کی کارروائی میں اسرائیل کے 30افراد زخمی ہوئے تھے۔ حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر اقوام متحدہ اور مصر کے سفارتکاروں نے اس جنگ بندی کے لیے کافی کوششیں کیں اور طویل مذاکرات کے بعد جنگ بندی آخر کار اتوار14مئی کو نافذ ہوگئی۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہر 15دن ایک مہینہ کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اس قسم کے ٹکرائو رونما ہوتے ہیں اور پھر بین الاقوامی برادری میدان میں کود کر جنگ بندی کرالیتی ہے اور یہ جنگ بندی جب تک قائم رہتی ہے جب تک کوئی دوسرا واقعہ پیش نہ آجائے۔ اس پورے تنازع میں غزہ میں مقتدر مسلح گروپ حماس کا کہیں نام نہیں آئے جبکہ حماس اور اسلامک جہاد کے مسلح افراد اسرائیل کے خلاف برسرپیکاررہتے ہیں۔ مبصرین کا کہناہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر حماس کا نام نہیں لے رہا ہے۔ جبکہ اس کو اندازہ ہے کہ حماس اس کا ازلی دشمن ہے اور اسرائیل کا وجود تک تسلیم نہیں کرتا۔ غزہ میں 2007سے حماس کا مکمل کنٹرول ہے۔ مغربی کنارہ میں بھی الفتح کے ساتھ ساتھ اسلامک جہاد بھی سرگرم ہے ۔ خفیہ اور منظر عام پر رہ کر دونوں طریقے سے اسلامک جہاد اسرائیل کے خلاف کارروائی کرتا رہا ہے۔ کئی حلقوں میں یہ بات اٹھائی جاتی رہی ہے کہ طویل عرصہ سے اصل مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کوئی کوششیں نہیں ہورہی ہیں اور مذکورہ بالا دونوں فلسطینی تنظیمیں اپنی انداز سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں۔ موجودہ تنازع بنیادی طور پر اسلامک جہاد اور اسرائیل کے درمیان ہی ہے اور جب سے اسرائیل میں نتن یاہو کی حکومت برسراقتدار میں آئی ہے تب سے اسرائیلی فوج نے اسلامک جہاد کے خلاف خاص طور پر مغربی کنارہ میں کارروائی تیز کی ہے۔ مغربی کنارہ میں ہر روز پرتشدد واقعات میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مارے جارہے تھے جن میں عورتوں اور بچوںبڑی تعداد کی ہے۔ وزیراعظم بنجامن نتن یاہو مسلسل اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ اس ٹکرائو میں اسلامک جہاد کو زبردست نقصان پہنچا ہے اور یہ کارروائی جاری رہے گی۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ تقریباً ایک ہفتہ کی کارروائی میں اسلامک جہاد کے 130ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے۔ گزشتہ روز بھی جنگ بندی سے قبل اسرائیل نے خان یونس کے کیمپ میں اسلامک جہاد کے ایک بڑے کمانڈر کو جس کا نام علی غالی بتایا جاتا ہے ۔ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ اس کارروائی میں اسلامک جہاد کے دو اور کارکن بھی مارے گئے تھے۔ اگرچہ اسرائیل بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو جانی مالی نقصان سے دوچار کررہا ہے مگر غزہ کی پٹی سے جو 400راکٹ داغے گئے تھے ان میں اسرائیل کے ایسے مقامات بھی نشانے پر آئے ہیں جو کہ غزہ کی پٹی سے کافی دور دراز تھے۔ یہ صورت حال اس لیے بھی تشویشناک ہے کچھ راکٹ راجدھانی تل ابیب تک میں آکے گرے۔
ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کو مغرب نے جو اینٹی میزائلی نظام Iran Dame مہیا کرایا ہے اس کو پورے طریقے سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ جبکہ اسرائیل مسلسل اپنے ملک کی عوام کو یہ یقین دلاتا رہا ہے کہ ان کے پاس ان کے تحفظ کے لیے ایک جامع منصوبہ ہے۔ اس کے باوجود اسلامک جہاد کے میزائلوں کی مار اسرائیل کی راجدھانی تک ہونا اسرائیل کے لیے تشویش کا سبب بن گیا ہے۔ دراصل عالمی برادری مسلسل اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے از سر نو کوششیں شروع کی جائیں۔ امریکی صدر نے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد جولائی 2022کے وسط میں جب جدہ کا دورہ کیا تھا تب بھی جی سی سی مغربی ممالک اور دیگر ہمنوا عرب ملکوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ فلسطین کے مسئلہ دیرینہ حل کے لیے کوششیں کی جائیں جبکہ اسی دورے میں جو بائیڈن نے تل ابیب آکر اسرائیل کے کارگزار وزیراعظم لیپڈ پائر سے جو ملاقات کی تھی اس کا مرکز ی مقصد ایران کو سبق سکھانا اور اس کے نیوکلیئر پروگرام پر قدغن لگانا تھا ۔ جبکہ اسرائیل یہ امیدکیے بیٹھا تھا کہ امریکہ مصالحت کرکے یہودی ریاست اور سب سے بااثر ملک سعودی عرب کے درمیان باچیت کی راہ ہموار کرائے گا اور ناٹو فوجی معاہدے کی توسیع مغربی ایشیا تک میں کرے گا جس سے اسرائیل کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ اسرائیل نے کبھی نہیں چاہا کہ دو ریاستی منصوبے پر عمل ہو اور وہاں پر ایک علیحدہ فلسطینی ریاست وجود میں آجائے۔ عرب ممالک خاص طور پر جی سی سی ممالک اس بات کو سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے مسئلہ کے دیرینہ حل کے لیے فلسطینی مملکت کا قیام لازمی ہے۔ جبکہ اسرائیل دنیا کی تمام امور پر بات چیت کرتا ہے مگر فلسطینیوں کو آزادی اور خودمختاری اور ان کو سیاسی حقوق بنیادی انسانی وجمہوری کے لیے تیار نہیں ہے۔ موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے اس کا رویہ سابقہ حکمرانوں سے زیادہ جارحانہ اور تشدد پسندانہ ہے۔
اسرائیل کے ایک وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فلسطینی نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی ہے ۔ اس سے اسرائیل کی منشا صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسرائیل تمام عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ ابراہیم سمجھوتے کے تحت سفارتی تعلقات بحال تو کر نا چاہتا ہے لیکن فلسطینیوں کو اپنے تسلط سے آزاد کرنے کو تیار نہیں ہے اور اب اس کی نگاہ مغربی کنارے پر ہے۔ وہ اس خطے میں دنیا بھر سے یہودی کو لا کر بسا نا چاہتا ہے۔ اسرائیل کا یہ تسلط کسی طور پر بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف روزی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے مغربی حلیفوں اس سنگین مسئلہ کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وقفہ وقفہ سے ہونے والی کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ ان طاقتوں کا اصل مقصد فلسطینی مزاحمت کی کمر توڑنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS