مولانا ارشد مدنی
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہی ہے کہ اولاد نرینہ کی پیدائش ماں باپ دونوں کے لئے اور بالخصوص باپ کے لئے زیادہ خوشی کا سبب بنتی ہے، اس لئے لڑکے کی پیدائش پر جشن کا ماحول ہوتا ہے اور عقیقہ کے نام پر بڑی بڑی دعوتیں ہوتی ہیں، عام طور پر ہمارے معاشرہ کی تصویر ایسی ہی ہے إلا ماشاء اللہ جبکہ لڑکی کی پیدائش پر یہ ماحول نظر نہیں آتا،مگر اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اس سلسلہ میں کچھ زیادہ ہی بچی کی پیدائش پر وحشیانہ عمل اختیار کرتے تھے۔
قرآن اس کی تصویر اس طرح پیش کرتا ہے’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جائے تو سارے دن اس کا منھ سیاہ رہے اور دل دل میں گھٹتا رہے، جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہے اس کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا چھپا پھرے، اس کو رہنے دے ذلت قبول کر کے یا اس کو مٹی میں داب دے، خوب سن لو وہ لوگ برا فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ النحل: ۵۸ – ۵۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عرب کے لوگ اپنے گھر میں لڑکی کے پیدا ہونے کو اتنا برا سمجھتے تھے کہ شرمندگی کے سبب سے لوگوں سے چھپتے پھریں اور اس سوچ میں پڑ جائیں کہ لڑکی پیدا ہونے سے جو میری ذلت ہوئی ہے اس پر صبر کروں یا لڑکی ہی کو زندہ زمین میں دفن کر کے پیچھا چھڑاؤں، قرآن کہتا ہے کہ لڑکی کی پیدائش کو دنیا میں اپنے لئے ذلت سمجھنے کا فیصلہ برا فیصلہ ہے۔
اس لئے گھر میں لڑکی کے پیدا ہونے کو مصیبت اور ذلت سمجھنا جائز نہیں، یہ کام اللہ کی توحید کا انکار کرنے والوں کا کام ہے، کچھ علماء نے لکھا ہے کہ اگر گھر میں لڑکی پیدا ہو تو زیادہ خوشی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ اللہ کو ایک نہ ماننے والے زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے غلط اسٹینڈ کی مخالفت ہو جائے۔
حضرت محمد ؐ کے ایک صحابی حضرت واثلہ بن الاسقعؓ فرماتے ہیں کہ وہ عورت بابرکت اور بھاگوان ہوتی ہے جس کی پہلی اولاد لڑکی ہو۔ (الدیلمی)
اللہ قیامت کے دن کے احوال بتاتے ہوئے فرماتا ہے کہ:’’جس دن زمین میں زندہ ہی دفن کی گئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی‘‘۔ (سورۃ التکویر: ۸- ۹)
یعنی یہ سمجھنا کہ ہماری اولاد تھی ہمیں اس پر مکمل حق ہے ہم جیسے چاہیں اس پر ظلم کریں تو خوب سمجھ لو کہ اولاد ہونے کی وجہ سے اس مسکین بچی پر یہ ظلم اوربھی سنگین ہو جائے گا اور قیامت کے دن یہ بچی جس کو سنگ دل باپ نے زندہ دفن کیا تھا ظالم باپ کا نام لیکر اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرے گی۔
اسلام نے دنیا میں آکر جہاں اوربہت سی چیزوں کو ناپید کیا ہے وہیں اس ظلم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا ہے اور بچیوں کے ساتھ اچھے سلوک کو ماں باپ کے لئے اللہ کی رحمت اور حصول جنت کا ذریعہ بتایا ہے اور جناب رسول اللہ ؐنے متعدد مرتبہ مذکورہ ظلم کے خلاف مسلمانوں کو بچیوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے ووہار کی تاکید فرمائی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓفرماتے ہیں کہ حضرت محمد ؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہیں اگر اس نے ان کے ساتھ اچھا رہن سہن کیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ سے ڈرا تو اس کے لئے جنت ہے‘‘۔ اچھے رہن سہن اور اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا سے انتہا تک ان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا رہا جس میں پالن پوسن پہننا اوڑھنا کھانا پینا پڑھنا لکھنا شادی بیاہ، بلکہ شادی بیاہ کے بعد بھی نہایت مشفق اور مہربان باپ کی طرح لینا دینا بھی کرتا رہے اور خدا کے خوف سے کرتا رہے یعنی ہر وقت یہ خیال کرتا رہا کہ اللہ نے ان کے حقوق میرے اوپر رکھے ہیں اگر میری طرف سے کوئی کوتاہی ہوئی تو موت کے بعد میدان محشر میں مجھ سے پوچھا جائیگا اور وہاں میری پکڑ ہوگی تو اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور جنت عطا فرما دے گا۔ (سنن الترمذی وشعب الایمان)
حضر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت محمد ؐ نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص بچیوں کی طرف سے کچھ آزمایش میں پڑگیا لیکن اس نے صبر کیا تو یہ بچیاں قیامت کے دن اس کے لئے جہنم سے حفاظت بن جائیں گی‘‘۔(سنن البیہقی)
یہاں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ قیامت کے دن آدمی کے لئے جنت یا جہنم کا فیصلہ اچھے یا برے عمل کی گنتی پر نہیں ہوگابلکہ عمل کے وزن پر ہوگا قرآن شریف میں کئی جگہ اس کو بتایا گیا ہے اب اس کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ بچیوں سے متعلق آزمائشوں پر صبر کرنا اللہ کے یہاں اتنا وزنی عمل ہے جو بے شمار گناہوں کے مقابلہ میں تنہا بھاری ثابت ہوگا اور دوسرے بہت سے گناہ اس کے سامنے ہلکے ہو جائیں گے۔
اسی طرح کا دوسرا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں وہ عورت اپنی تنگ دستی کا ذکر کرنے لگی اور مجھ سے کچھ مدد کا سوال کیا، اتفاق ایسا تھا کہ میرے گھر میں ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں تھا میں نے وہی کھجور اس کو دیدی اور عورت نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کر کے ایک ٹکڑا ایک بچی کو اور ایک ٹکڑا دوسری بچی کو دیدیا اور اٹھ کر چلی گئی مجھے اس ماں کی محبت پر تعجب ہوا کہ اس نے اپنے مقابلہ میں اپنی بچیوں کو ترجیح دیدی… وہ گئی اور حضرت محمدؐ گھر میں تشریف لے آئے تو میں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کو آپ ؐسے بیان کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’جو شخص بچیوں کی طرف سے آزمائش میں پڑ گیا تو بچیاں قیامت کے دن اس کے لئے جہنم کی آگ سے دیوار اور حفاظت بن جائیں گی‘‘۔(سنن الترمذی)
اسی طرح حضرت محمدؐ کے خاص خادم حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے دو بچیوں کی ضرورتوں کو پورا کیا (یعنی پیدائش سے لیکر جوانی تک شادی بیاہ تک بلکہ موت تک ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا) تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے جیسے ہاتھ کی بیچ کی انگلی اور اس کے برابر کی انگلی‘‘ یعنی میں اور وہ جنت میں ساتھ ساتھ رہیں گے۔ (صحیح مسلم)
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بچیوں کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند ہے کہ اسکے مقابلہ میں گناہوں کے ڈھیر بھی قیامت کے دن ہلکے پڑ جائیں گے اور معاف ہو جائیں گے اور بچیوں کے ساتھ اچھا معاملہ اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح نہ دینا جہنم سے دوری اور رسول اللہ ؐ کے قریب جنت میں رہنے کا ذریعہ ہے۔
ہمارے ملک میں خاص طور پر بچی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ایسے گھرانے بھی دیکھے گئے ہیں کہ اگر بچی پیدا ہو گئی تو سب بڑی بوڑھی عورتیں رونے اور ماتم کرنے بیٹھ گئیں جس کا اصل سبب در اصل ہمارے معاشرہ کی خرابی ہے کیونکہ غیر اسلامی رسم ورواج نے ہم کو قرآن وحدیث کی تعلیمات سے دور کر دیا ہے تلک کی رسم خالص غیر اسلامی رسم ہے ہمارے معاشرہ میں مختلف ناموں سے اس طرح کی رسم گھر کر گئی ہے کہ لڑکے والا لڑکی والے سے اپنے مطالبہ کو لئے بغیر شادی نہیں کرتا جو لوگ غربت کیوجہ سے بے غیرت لڑکے کے مطالبہ کو پورا نہیں کر پاتے ان کی بچیاں گھروں میں بیٹھی ہیں ان کے رشتے نہیں آتے پورے معاشرہ میں یہ مرض ناسور کی طرح پھیلا ہوا ہے یہاں تک کہ مذہبی گھرانے بھی اس بیماری کا شکار ہیں اپنے بچوں کی شادیاں بغیر تلک لئے نہیں کرتے، بچیوں کے سلسلہ میں اخراجات کی یہ زیادتی جو ماں باپ کے لئے بچی کی پیدائش کے بعد ہی سے سوہان روح بن جاتی ہے، در حقیقت بچیوں کی پیدائش کو مصیبت سمجھنے کا اصل سبب اور محرک ہے لیکن جس مسلمان کا قرآن وحدیث پر ایمان ہے اس کو ہمیشہ اللہ اور اس کے سچے رسول حضرت محمد مصطفی ؐ کے ان ارشادات اور احادیث کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اپنے خاندان اور اپنی زندگی کو غیر اسلامی رسم ورواج اور نظریات سے پاک رکھنا چاہئے۔
ہمارے ملک میں کچھ لوگ اس طرح کا نظریہ بھی رکھتے ہیں کہ اگر بچی کی شادی کی گئی اور اس کے شوہر کا کسی حادثہ میں یا بیماری میں انتقال ہو گیا یا میاں بیوی میں تعلقات میں خرابی ہو گئی اور بچی اپنے ماں باپ کے گھر آگئی تو یہ اس لڑکی کی نحوست اور بدبختی ہے کچھ لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ ان بچیوں کو ماں باپ اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں اور اپنی جوان بچی کو کسی مندر میں چھوڑ دیتے ہیں، ماں باپ کے اس عمل سے ان کی جوانی دوسرے لوگوں کی ہوس کا شکار بن کر گزر جاتی ہے، یاد رکھیئے اسلام دین جس کو حضرت محمد ؐ لیکر آئے ہیں اس میں اس طرح کے واہیات نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
حضرت سراقہ بن مالک ؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے کہ ’’کیا میں تم کو سب سے بہترین اور اللہ کے نزدیک سب سے مقبول صدقہ کیا ہے بتاؤں؟ تیری وہ بیٹی ہے جو تیری طرف لوٹا دی گئی ہے اور تیرے سوا اس کے لئے کوئی کمانے والا نہیں ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت محمد ؐ اپنی امت کو یہ بتا رہے ہیں کہ تم ایسی بچی کو جو شادی کے بعد پھر کسی وجہ سے واپس آگئی، تم اس کو منحوس نہ سمجھو بلکہ اس کی ضرورت کو پورا کرو، تمہارا عزت کے ساتھ اس کو گھر پر رکھنا اس کی ضروریات زندگی کو شادی سے پہلے کی طرح پورا کرنا اس کی دل آزاری نہ کرنا اور اس پر خرچ کرنا اللہ کے نزدیک بہترین اور مقبول ترین صدقہ ہے اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے والا ہے۔
مسلمانو! قرآن اور اللہ کے نبی کی حدیثوں سے سبق لینا چاہئے اور بچیوں کو بچوں کے مقابلہ میں کمتر اور کہتر نہ سمجھنا چاہئے ہوسکتا ہے ان کو گھر میں عزت دینا ہی کل قیامت کے دن ماں باپ کی مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔
[مضمون نگار: جمعیۃ علما ہند کے صدر ہیں]