پروفیسر عتیق احمدفاروقی
چند روز قبل میں ایک ٹی وی مباحثہ دیکھ رہاتھا۔ اس میں یکساں سول کوڈ پر بحث چل رہی تھی۔ مباحثہ کا اینکر ،جسے حکومت کا ترجمان کہاجائے تو غلط نہ ہوگا، دلیل پیش کررہاتھا کہ سوائے مسلمانوں کے ملک کے کسی بھی مذہبی طبقے ، ذات یا علاقوں کے لوگوں کو یکساں سول کوڈ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔کچھ دیگر پارٹیوں کے ترجمان اس بات سے متفق نہیں نظرآرہے تھے ۔ پچھلے چندماہ سے ملک کا میڈیا جسے حزب مخالف ’گودی میڈیا‘ کہتاہے ، اسی موقف پر ڈٹاتھالیکن مباحثہ کے چند دنوں بعد ہی سچائی سامنے آنے لگی اوریہ بات قریب قریب ثابت ہوگئی کہ عام انتخابات کے قریب گیارہ ماہ قبل اس مدعے کا اٹھانے کا مقصد یوسی سی کو نافذ کرنانہیں بلکہ پولرائزیشن کرناہے۔ خود لاکمیشن سے لے کر حکومت اورعدالت سبھی کوعلم ہے کہ یہ قانون ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں کبھی نافذ کیاہی نہیں جاسکتا کیونکہ یہاں ہزاروں قبائل ،سیکڑوں تہذیبوں اوردرجنوں مذاہب کے لوگ رہتے ہیں جن کا کھانا پینا تہذیب وثقافت اور رہن سہن ہر دس کوس کے بعد تبدیل ہوجاتاہے۔
تمام اندھی وفاداری کے باوجود ذرائع ابلاغ کے کچھ مخصوص جزو اورسوشل میڈیا نے اس بات کا انکشاف کیاہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے لے کر قبائلی تنظیموں تک اورممکنہ بی جے پی حلیفوں جیسے شرومنی اکالی دل سے لے کر حالیہ شراکت دار اے آئی اے ڈی ایم کے تک سبھی نے اس قانون کے نفاذ کی مخالفت کی ہے۔ دراصل اے آئی اے ڈی ایم کے کے 2019ء کے الیکشن منشور میں بھی اس قانون کی مخالفت کی گئی تھی۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری اورسابق وزیراعلیٰ اڈپڑی پلانی سوامی کاکہناہے کہ ’برائے مہربانی ہمارے 2019کے انتخابی منشور کو آپ پڑھیں جس میں ان مدعوں پر ہم لوگوں نے اپنے خیالات واضح کردئے ہیں۔‘پارٹی کواس بات کا یقین ہے کہ اس طرح کے اقدام ہندوستان میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو پامال کردیں گے۔ اس سے پہلے ایک دیگر بی جے پی شراکت دار میزو نیشنل فرنٹ نے لاکمیشن کو جو اس مدعے کا تجزیہ کررہاہے، لکھاتھاکہ یکساں سول کوڈ نسلی اقلیتوں کے مفاد کے خلاف ہے۔ اپنے خط میں میزورم کے وزیراعلیٰ زورام تھنگا نے لکھاکہ ان کی پارٹی مانتی ہے کہ یوسی سی میزو لوگوں کے مذہبی اورسماجی طور طریقے اور ان کے روایتی قوانین سے متصادم ہے۔ جبکہ یہ قوانین آئین کے دفعہ (جی) 371 کے تحت نافذ ہیں۔ اسی مہینے اس سے قبل میگھالیہ میں بی جے پی کی ایک اورشراکت دار پارٹی نیشنل پپوپیپلز پارٹی کے سربراہ اوروزیراعلیٰ سی کے سنگما نے اصرار کیاہے کہ موجودہ شکل میں یوسی سی ہندوستان کے تصور کے خلاف ہے۔ شرومنی اکالی دل جن کی این ڈی اے میں واپسی کا امکان ہے،نے بھی یوسی سی کی مخالفت کی ہے۔ اس پارٹی کاکہناہے کہ سکھ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ دوسری طرف شرومنی گردوار پربندھک کمیٹی جو سکھوں کی عبادت گاہوں کاانتظام کرنے میں مدد کرتی ہے، نے بھی یوسی سی کے خلاف بولا ہے۔ شرومنی اکالی دل کے دہلی یونٹ کے سربراہ پرم جیت سنگھ ساما نے لاء کمیشن کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیاہے کہ یوسی سی کا قانون کا وضع کرتے وقت مذہبی حقوق، روایت اورشناخت کے تحفظ کا خیال رکھاجائے۔
آدی واسی سمنوے سمیتی کے بینر تلے بہت سی قبائلی تنظیموں نے یوسی سی کی مخالفت میں رانچی میں راج بھون کے سامنے احتجاج کیا اوراسے قبائلی وجود کیلئے خطرہ بتایا۔ اس طرح پورے ملک کے قبائلی گروپ اس قانون کی اس بناپر مخالفت کررہے ہیں کہ یہ قبائلی وجود کیلئے خطرہ بن کرآیاہے۔ سمتی رکن اورسابق جھارکھنڈ کے وزیر گیتاشری اوراؤں کامانناہے کہ یوسی سی قبائلی روایتی قوانین اورحقوق ، جوملکی آئین نے ہمیں دئے ہیں، کو بے اثر کردے گا۔چھتیس گڑھ اورشمال مشرق کے قبائلی تنظیموں نے بھی یوسی سی کی مخالفت کی ہے۔ ناگالینڈٹرائبل کونسل نے لاکمیشن کو لکھاہے کہ اگریوسی سی کو نافذ کیاجاتاہے تو یہ آئین کی دفعہ 371-Aکے التزامات کے اثر کو کمزور کردے گا۔ میزرم میں چرچ تنظیموں کے ایک گروہ، میزورم کہران ہریکیوٹ کمیٹی نے بھی لاکمیشن کو یوسی سی کی مخالفت میں خط لکھاہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے واضح کردیاہے کہ وہ یوسی سی کی سیاسی اورقانونی دونوں اعتبار سے مخالفت کرے گا۔ اس تعلق سے بورڈ کے آفس سکریٹری محمدوقار الدین نے اپنے ایک بیان میں کہا،’قومی اتحاد،تحفظ ،سلامتی اوربھائی چارہ کو بہترین طریقے سے تبھی بچایااورقائم رکھاجاسکتاہے جب اقلیتوں اورقبائلی فرقوں کو ان کے اپنے منفرد قوانین پر چلنے کی اجازت دے کر اپنے ملک کے تنوع کو ہم قائم رکھیں۔‘اسی طرح دیگرمسلم تنظیموں اورپارٹیوں نے یوسی سی کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیاہے۔
دراصل یہ مدعہ اس سال 27جون کو تب زورپکڑگیا جب وزیراعظم نریندرمودی نے اس دن بی جے پی بوتھ ورکرس کو خطاب کرتے ہوئے یوسی سی کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ان سامعین سے سوال پوچھا کہ ایک گھر میں ایک رکن کیلئے ایک قانون ہو اوردوسرے رکن کیلئے دوسرا قانون ہو تو کیاوہ گھر چل سکتاہے ؟ پبلک نے نفی میں جواب دیا۔ پھرانہوں نے سامعین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جب ایک گھر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ توپورے ملک میں یہ نظام کیسے چل سکتاہے؟ اب لوگ اگردانشمندہوتے تو وزیراعظم سے سوال کرسکتے تھے کہ گھرکا موازنہ ملک سے کیسے کیاجاسکتاہے ؟ گھرمیں یکجہتی ہوتی ہے اورہماراملک متنوع ہونے کیلئے مشہور ہے۔ ابھی اس مسئلے کو اٹھانے کی ضرورت کیاتھی جب 2018 میں لاکمیشن کو عوام سے رائے لینے کے بعد یہ واضح کردیاتھا کہ اس مرحلے میں یوسی سی نہ تو ضروری ہے اورنہ مطلوب ہے۔ اب حکومت ہند نے خوامخواہ اس مسئلے پرعوام سے دوبارہ رائے لینے کیلئے لاکمیشن کومجبور کیاہے۔ میں سمجھتاہوں کہ حکمراں جماعت نے جس مقصد سے یہ مدعہ اٹھایاہے اس میں کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ qwr