عبیداللّٰہ ناصر
گزشتہ دنوں الٰہ آباد(اب پریاگ راج) اور پٹنہ میں ملازمت کی تلاش میں اپنے اپنے گھروں سے سیکڑوں میل دور آئے طلبا پر پولیس نے جس طرح لاٹھیاں برسائیں سوشل سائٹ پر وہ مناظر دیکھ کر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا پر پولیس لاٹھی چارج کے مناظر یاد آگئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی کہ پولیس کسی خاص طبقہ یا نظریہ کے حامل لوگوں کی دشمن ہے۔ دراصل پولیس نہیں حکومت دشمن ہوتی ہے اور پولیس تو ہے ہی سرکار کی لٹھیت۔ جس طرح پرانے زمانہ کے زمینداروں کے لٹھیتوں کی کسانوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی تھی بس وہ آقا کا حکم بجا لانے کے لیے کسانوں کو لہو لہان کردیا کرتے تھے، اسی طرح ہماری پولیس بھی حکومت کے حکم کی غلام ہے۔ حالانکہ جمہوری نظام میں پولیس یا کسی بھی ادارہ سے حکومت وقت کی نہیں بلکہ آئین ہند اور اس کے اصولوں و ضوابط کی پاسداری کی امید کی جاتی ہے مگر یہ سب اصولوں اور آدرشوں کی باتیں ہیں، عملی طور سے ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس لیے آج جس نظام نے پولیس کو آدم خور بنا دیا ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہی پولیس کل ان کی بھی ہڈی پسلی توڑ کر جیلوں میں ٹھونس سکتی ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ اپنی سخت گیری کے لیے مشہور ہیں۔ حالانکہ عوام ابھی وہ منظر نہیں بھولے ہیں جب یہی یوگی جی پولیس کی سختی سے پریشان ہو کر لوک سبھا میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور ا سپیکر صاحب سے تحفظ کی درخواست کر رہے تھے۔ دراصل پولیس محکمہ کا مزاج ہی جاگیردارانہ ہے۔ انگریزوں نے جو فورس تیار کی تھی، وہ ان کے نظام کے لیے مناسب تھی، آزادی کے بعد پولیس کو جمہوری نظام کے مطابق ڈھالنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی کیونکہ یہ کسی بھی پارٹی کی حکومت کے حق میں نہیں ہے، اس لیے سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود اس پولیس فورس کی اصلاح کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی جسے آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے جسٹس آنند نرائن ملا نے ’’مجرموں کا منظم گروہ‘‘ کہا تھا۔ یہ تو ہوئی پولیس کی بربریت اور کام کرنے کے اس کے طریقہ پر بات مگر یہاں اصل مسئلہ پولیس کی بربریت نہیں بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا شکار آج کے ہندوستان کا نوجوان ہے لیکن جو کسی پارٹی کیا شاید خود ان کا موضوع بھی نہیں ہے اور وہ ہے بے روزگاری کا۔ کیونکہ اگر عوام خاص کر ان کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کا موضوع بے روزگاری ہوتی تو وہ ووٹ دیتے وقت اسی کو مد نظر رکھ کر ووٹنگ کرتے لیکن جب ووٹ جارحانہ قوم پرستی، مذہبی جنون، اپنے ہی ہم وطنوں، پڑوسیوں یہاں تک کہ دوستوں کے ایک طبقہ سے بدلہ لینے، نفرت کرنے اور انھیں سبق سکھانے کے ایشوز پر دیے جا رہے ہوں تو پھر روزگار کے لیے کوئی پارٹی کیوں ووٹ مانگے گی اور روزگار فراہم کرنے کی جانب کیوں توجہ دے گی؟بہار اسمبلی الیکشن میں تیجسوی یادو نے روزگار کو انتخابی موضوع بنا دیا تھا۔ بی جے پی نے لاکھ فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی لیکن تیجسوی اپنے موضوع پر ڈٹا رہا، مجبوری میں بی جے پی کو بھی اپنی پچ بدلنی پڑی، اس نے تیجسوی سے زیادہ روزگار دینے کا وعدہ کیا لیکن اپنی مہم فرقہ وارانہ گول بندی پر ہی مرکوز رکھی، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر بہار کے ووٹروں نے روزگار کے لیے ووٹ ہی نہیں دیا تو پھر روزگار کے لیے پریشان کیوں ہیں اور کیوں پٹنہ میں ان کے بچے پولیس کی لاٹھیاں کھارہے ہیں۔دھیان رہے کہ بہار میں1917میں گریجویٹ بے روزگاروں کی شرح 14 فیصد تھی جو دسمبر2021میں تقریباً36فیصدہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) نے جاری کیے ہیں۔ اس سنگین صورت حال کے باوجود بے روزگاری انتخابی موضوع نہیں ہے تو اس میں غلطی کس کی ہے؟ سیاسی پارٹیاں تو اسی پچ پر کھیلیں گی جس سے ان کو ووٹ ملیں گے۔
بے روزگاری کے معاملہ میں کسی بھی ریاست اور مجموعی طور سے پورے ملک کے حالات بیحد تشویشناک ہیں۔ وزارت محنت نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک میں بے روزگاری گزشتہ پچاس برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حقیقت کے انکشاف کے بعد حکومت نے بے روزگاری کے اعداد و شمار جاری کرنے پر ہی پابندی لگا دی تھی مگر لاکھ پردہ پوشی کے باوجود بھی تلخ حقیقت سامنے آہی جاتی ہے اور بے روزگاری تو ایسا مسئلہ ہے جس کا شکار ہر گھر، ہر خاندان اور ہر طبقہ ہے۔ یہ حقیقت تو چھپ سکتی ہی نہیں۔ اترپردیش اسمبلی کا الیکشن چل رہا ہے۔ یہاں 2017 میں بے روزگار گریجویٹ کی شرح بے روزگاری 9.4 فیصد تھی اور اس حساب سے تقریباً13.6لاکھ گریجویٹ بے روزگار تھے۔2021میں یہ شرح بڑھ کر 15فیصداور بے روزگار گریجویٹ کی تعداد28.41لاکھ ہوگئی مگر اترپردیش اسمبلی الیکشن میں حکمراں پارٹی کے موضوع کیا ہیں وہ سب جان سمجھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے پھیلائے جھوٹ کی کاٹ میں ہی مد مقابل پارٹیوں کی توانائی خرچ ہو رہی ہے۔ نتیجہ میں اصل موضوع خاص کر بے روزگاری کا مسئلہ انتخابی مہم سے غائب ہے۔ کانگریس نے20لاکھ نوکریاں اور سماج وادی پارٹی نے 22لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ ضرور کیا ہے لیکن وہ انتخابی شور میں دب گیا ہے اور الیکشن جناح، پاکستان، نماز وادی پارٹی، گول ٹوپی، دنگا فساد وغیرہ کے موضوع پر لڑا جا رہا ہے۔ انتخابی ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ لاٹھیاں کھا نے والے نوجوان اور ان کے اہل خاندان بھی بے روزگاری نہیں بلکہ دھرم کے نام پر ووٹ دیں تو تعجب نہیں ہوگا۔ آخر ان میں سے زیادہ تر نوجوان اور ان کے اہل خاندان جے این یو، جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کی پٹائی کو حق بجانب ٹھہرا رہے تھے، خوشیاں منا رہے تھے کہ نہیں ؟
احتجاج اور مخالفت جمہوریت کا بنیادی عنصر ہے۔ جمہوری نظام میں مخالفین کو دشمن نہیں سمجھا جاتا مگر ہمارے موجودہ نظام میں جمہوریت کی یہ تشریح بدل گئی ہے، اب مخالفین کو صرف حکومت حکمراں اور حکمراں پارٹی کا ہی نہیں بلکہ ملک اور اکثریتی طبقہ کے دھرم کا بھی دشمن سمجھا جاتا ہے اور مخالفین و احتجاجیوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو چاہے بھیما کورے گاؤں کے مخالفین ہوں یا شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والے سماجی اور سیاسی کارکن یا جے این یو، جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا، ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک نہ کیا جاتا اور انہیں برسوں جیلوں میں سڑایا نہ جاتا۔پریاگ راج اور پٹنہ میں طلبا کو دشمنوں کی طرح پیٹنا بھی احتجاجیوں کو دشمن سمجھنے کی سوچ کا ہی حصہ ہے۔بزرگوں سے سنا تھا کہ لکھنؤ یونیورسٹی کے طلبا نے اپنے مطالبات کو لے کر ہنگامہ کیا، کچھ توڑ پھوڑ بھی کی، پولیس نے لاٹھیاں بھی بھانجیں، طلبا کی گرفتاری شروع ہوئی، طلبا بھاگ کر مرحوم رفیع احمد قدوائی کے سرکاری بنگلہ پر پہنچ گئے۔ رفیع صاحب نے سب کو اپنے بنگلے پر ہی روک لیا اور آئی جی کو طلب کر کے کہا کہ دیکھو تم ان بچوں کو گرفتار کرنا چاہتے ہو، سمجھو یہ گرفتار ہو گئے اور جیل میں ہیں کیونکہ جب تک امن نہیں ہوجاتا میں ان کو یہاں سے نہیں جانے دوں گا لیکن انہیں جیل بھی نہیں بھیجنا چاہیے کیونکہ یہ ان کے مستقبل کا سوال ہے۔ایسے مشفق لیڈر ہوتے تھے ہمارے، ہمیں بھی اپنے طالب علمی کا دور یاد آ رہا ہے۔ لکھنؤ کے امین آ باد تھانہ میں ایک کانسٹیبل تھے، بڑ ی گرابی زبردست مونچھ تھی ان کی، بولتے تھے تو لگتا تھا دہاڑ رہے ہیں اور گالیاں تو ایسی طبع زاد اور گڑھی ہوئی بکتے تھے جنھیں یاد کر کے آج بھی ہنسی آجاتی ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیت کی تعریف کرنی پڑتی ہے ہم لوگ جب کوئی ’’نوجوانی کی فطری بدمعاشی‘‘کرتے تو وہ نہ جانے کہاں سے نمودار ہوجاتے تھے اور پھر اپنی تخلیقی صلاحیت کے مظاہرہ کے ساتھ ہی اتنی زور سے ڈنڈا اٹھتا تھا کہ لگتا تھا ہڈی توڑ دیں گے لیکن جسم پر بس چھو جاتا تھا۔ ہم لوگ غلطی ہوگئی، اب نہیں ہوگی کہہ کر کھسک لیتے تھے، بعد میں کہتے کیا ماموں اتنی زور سے ڈنڈا مارا تھا اور اس کے جواب میں ان کی تخلیق کے نمونہ سننے کو ملتے تھے۔ اپنے ساتھیوں یا دوسروں سے ٹھیٹھ اودھی زبان میں کہتے ’’جیسے اپنے لڑکے ویسے یہ لڑکے، ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیتے ہیں، کوئی دشمن تھوڑے ہی ہیں، نئی نئی جوانی آئی ہے۔۔۔ می پن تو کریں گے ہی۔‘‘مگر نہ اب ویسے لیڈر ہیں اور نہ ویسے پولیس والے، سماج سے جیسے شرافت، رواداری، سرپرستی جیسے اوصاف ختم ہی ہو گئے ہیں۔ ایک عجب سا انتشار، عجب وحشت سماج میں پھیل گئی۔ بے روزگاری، معاشی مشکلات اور دیگر مسائل کے ساتھ ہی ساتھ سماج میں پھیل رہی یہ عدم رواداری اور تشدد سماج کو کھوکھلا کر چکے ہیں۔ ہندوستانی سماج خاص کر ہندی بیلٹ کا سماج اپنے زوال کی آخری منزل کو پہنچ رہا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]