کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں: زین شمسی

0

زین شمسی

بہار میں ذات شماری کا کام مکمل ہوتے ہی سیاست گرم ہوگئی تھی۔ بات عدالت تک پہنچی، سپریم کورٹ تک پہنچی، ہنگامہ بھی ہوا، لیکن بالآخر نتیش کمار نے ذات شماری کا ڈاٹا عام کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس ڈاٹا کے عام ہونے کے بعد سیاست کا تناسب اور توازن بدلنے کا قوی امکان ہے۔ اسے اتفاق کہیے یا پھر قسمت کا پھیر یا پھر سیاسی چالبازی کہ جب بحث ’’ٹھاکر‘‘ کے کنواں پر گرمائی اور جب مباحثہ سناتن دھرم کے وجود تک پہنچا، اسی درمیان بہار میں ذات شماری کا معاملہ سامنے لادیا گیا۔ یعنی اسے دھرم کی سیاست کو ذات کی سیاست سے پچھاڑنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یاد کریں تو ایسا ہی معاملہ تب سامنے آیا تھا جب 1990میں وزیراعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کا نفاذ کیا تھا۔ ریزرویشن کے معاملہ کو اعلیٰ ذاتوں کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بھارت میں ذات پات کی لڑائی شروع ہوگئی تھی، اس کی دھار کو ختم کرنے کے لیے 1992میں بابری مسجد کی شہادت عمل میں لائی گئی۔ حکومت کانگریس کی تھی اور اترپردیش میں دلت وزیراعلیٰ کلیان سنگھ تھے، جن کے ماتحت بابری مسجد کی مسماری کی ذمہ داری تھی۔ اس معاملہ سے بھارت ذات پات کی لڑائی کی جگہ ہندو-مسلم تنازعات میں الجھ گیا۔ گویا بھارت میں ایک مسئلہ کا حل دوسرے مسئلہ سے نکالنے کی روایت شروع سے ہی رہی اور وہ اب تک جاری و ساری ہے۔
نریندر مودی کی حکومت وکاس کے نام پر آئی تھی۔ اس نے منموہن سرکار کے دور کی بدعنوانیوں کو خوب اُجاگر کیا اور عوام کو اپنی ترقی کے لیے ایک نئی سرکار کو منتخب کرنے کا موقع ملا۔ پورے آب و تاب کے ساتھ نریندر مودی سرتاج بنے، لوگوں کی امیدیں ان سے وابستہ تھیں اور عوام کو اس کا شدید انتظار تھا کہ کب ان کے اچھے دن آئیں گے، لیکن سرکار پھر اسی رویہ اور اسی روایت کی طرف لوٹ گئی، یعنی مذہب کی سیاست۔
گویا آزادی اور تقسیم ہند کا ایک ساتھ ورود ہونا بھارت کے مستقبل کے لیے ایک عذاب ہی بن چکا ہے۔ بھارت کی سیاست میں ترقی کی رہ گزر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ کبھی دھرم کی سیاست کا پلڑا بھاری ہوتا ہے تو کبھی ذات کی سیاست کا اور اس طرح ہمارا وطن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی قطار میں کھڑا ہونے سے محروم رہ جاتا ہے۔
جہاں تک بہار کے سماجی تانابانا کا سوال ہے تو بہار میں ذات پات کی سیاست کی زنجیر بہت سخت رہی ہے۔ جاگیروارانہ ذہنیت سے بہار اب تک اوپر نہیں اٹھ سکا ہے۔ بہار میں لالو یادو کی حکومت سے قبل کانگریس کی ہی حکومت رہی ہے۔ بھاگلپور فساد کے وقت بھگوت جھا آزاد کی حکومت تھی اور اس سے قبل بہار میں کانگریس ہی حکومت میں آتی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ فسادات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لالویادو کے حکومت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔ کبھی کہیں چھٹ پٹ واقعات ہوئے مگر اس میں شدت نہیں تھی۔ لالویادو نے دھرم کی سیاست کی کاٹ ذات کی سیاست میں نکالی اور ’’بھورا بال‘‘ صاف کرنے جیسا پوشیدہ نعرہ کامیاب رہا۔ مگر ذات پات کی سیاست عروج پر پہنچی، نتیجہ یہ ہوا کہ فسادات تو ختم ہوگئے لیکن لوگ اپنی اپنی ذاتوں کی فلاح و بہبود تک محدود ہوگئے اور بہار کی ترقی کا خواب آج تک ادھورا ہی رہ گیا۔
اب ذات شماری کے اس معاملہ کے بعد سیاست میں کیا گھمسان ہوگا وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر جو ڈاٹا سامنے آیا ہے، وہ مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے والا بھی ہے۔ اگر مسلم قوم کی قوت بصارت کام کرگئی تو شاید مسلمانوں کا سیاسی بنواس بھی ختم ہوجائے گا۔ ڈاٹا کے مطابق بہار میں سب سے بڑی آبادی یادوؤں کی ہے یعنی پوری آبادی کا 14.2فیصد جبکہ کرمی کا فیصد تناسب 3.5ہے۔ واضح ہو کہ نتیش اسی کمیونٹی سے آتے ہیں تو یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر ذات پات کی خالص سیاست ہوتی تو پھر نتیش کا وزیراعلیٰ بننا حیران کن ہی ہے مگر اسی ذات پات کی سیاست میں اندرونی ذات پات کی سیاست بھی کارفرما ہے۔ اعلیٰ ذات میں برہمنوں کی تعداد 4.6سے زیادہ ہے جبکہ بھومیہار دوسری پوزیشن میں ہیں۔ مگر جب ذات پات کی سیاست سمٹی ہوئی تھی تب کم تعداد ہونے کے باوجود اعلیٰ ذات ہی حکمراں رہے۔ اس سے صاف ہے کہ ذات پات کی سیاست سے ادنیٰ طبقہ کی سیاسی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔
ڈاٹا نے مسلمانوں کی تعداد کو بھی واضح کیا ہے۔ اگر مسلمانوں میں ذات پات کے معاملہ کو ہٹاکر دیکھیں تو بہار کی آبادی کا 17.4فیصد حصہ مسلمانوں کا ہے۔ مگر چوں کہ مسلمانوں کے اندر بھی ذات پات پوری طرح سرایت کرچکی ہے، اس لیے اسے صرف ایک تعداد کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ اگر سب متحد ہوتے تو بہار کی سیاست میں کم ازکم نائب وزیراعلیٰ کے حقدار مسلمان ہی ہوتے۔ مگر شیخ، سید، پٹھان، انصاری، راعین وغیرہ وغیرہ نے اب خود کو ذات میں ہی تبدیل کردیا ہے۔ اب مسلمان کوئی نہیں ہے۔ وہ دوسری ذاتوں اور مذہبوں کے مرہون منت ہے اور اپنی سیاسی وقعت کھوچکا ہے ورنہ اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود ان کے حصہ میں کابینہ کا عہدہ بھی نہیں آتا تو اسے کیا کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال 21ویں صدی میں جب دنیا دوسری دنیا کی تلاش میں سرگرداں ہے ایسے میں بھارت ذات ودھرم کے نشہ میں چور ومگن ہے۔ زمانہ میں پنپنے کی یہ باتیں مضحکہ خیز ہی ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS