نئی دہلی (ایجنسیاں)سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن ایک بار پھر آمنے سامنے نظر آ ئے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف الیکشن کمیشن کے اس موقف سے متفق نہیں کہ ووٹ کا حق صرف قانون حق ہے نہ کہ آئینی حق۔ دراصل سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا ہے کہ ووٹ کا حق قانونی حق ہے۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے آزادانہ نظام کے مطالبے کی درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں، سماعت کے دوران جسٹس جوزف نے وکیل سے سوال کیا کہ ‘آئین کے آرٹیکل 326 کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟جواب میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ 326 ووٹر کو ووٹ کا حق نہیں دیتا، اس پر جسٹس جوزف نے پہلے پوچھا کیوں؟ پھر مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 326 پڑھیں، اس کے بعد وکیل نے عدالت میں ہی آئین کا آرٹیکل 326 پڑھا، جو درج ذیل ہے۔
’لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوں گے۔ اس کے لیے ووٹرکا ہندوستان کا شہری اور 21 سال کی عمر کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہندوستانی نہ ہونے، ذہنی طور پر کمزور، جرائم، بدعنوانی اور غیر قانونی کام میں ملوث ہونے کی وجہ سے کسی قانون کے تحت حق رائے دہی پر پابندی نہیں لگائی گئی تو شہری کسی بھی الیکشن میں بطور ووٹر رجسٹرڈ ہونے کا حقدار ہوگا۔(20 دسمبر 1988 سے پہلے ووٹ ڈالنے کے لیے کم از کم 21 سال کی عمر کا ہونا لازمی تھا۔) تو شہری کسی بھی الیکشن میں بطور ووٹر رجسٹرڈ ہونے کا حقدار ہوگا۔’ اس جملے پر زور دیتے ہوئے جسٹس جوزف نے سوال کیا؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کی طاقت آئین سے بالاتر ہو گی؟ جسٹس جوزف نے کہا کہ آئین نے حقوق دینے پر غور کیا ہے۔ یہ بنیادی چیز ہے۔ ووٹ ڈالنے کی عمر شروع میں 21 سال تھی جسے بعد میں کم کر کے 18 سال کر دیا گیا۔ نااہلیاں کیا ہیں، اس کا ذکر آرٹیکل 326 میں ہی ہے۔ جسٹس جوزف نے واضح طور پر کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ووٹ کا حق صرف ایک قانونی حق ہے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS