انجینئر خالد رشید علیگ
صدارتی انتخابات میں حزب اختلاف کی مایوس کن کارکردگی، مہاوکاس اگھاڑی کی حکمت کا پاش پاش ہوجانا، ممتا بنرجی کے گھر میں سی بی آئی کی نقب زنی، منیش سسودیا کے سر پر لٹکتی گرفتاری کی تلوار، سونیا گاندھی کی ای ڈی کورٹ میں حاضری، کانگریس کے ممبران کی پارلیمنٹ سے معطلی، وہ واقعات ہیں جو ملک میں آنے والے سیاسی منظرنامہ میں حزب اختلاف کی بدتر حالت کے نہ صرف عکاس ہیں، بلکہ اس بات کا اعلان بھی کرتے ہیں کہ بی جے پی آنے والے وقتوں میں ملک میں ایک ایسا ماحول بنانا چاہتی ہے جس میں حزب اختلاف کا کوئی رول نہ ہو۔ ابھی تک بی جے پی کانگریس مکت بھارت کا نعرہ بلند کرتی رہی ہے لیکن گزشتہ سالوں میں اس کے رویہ میں جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ اب یہ نعرہ اپوزیشن مکت بھارت میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بی جے پی 2024 میں ہونے والے قومی انتخابات کو یکطرفہ بنا دینا چاہتی ہے، با لکل ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کشتی مقابلہ کی طرح، جہاں کوئی رول کوئی قاعدہ نہیں ہوتا، غالب پہلوان کرسی اٹھا کر بھی مدمقابل کے سر پر دے مارتا ہے اور کبھی کہیں سے کوئی سیڑھی یا پول اکھاڑ کر اس کے سر پہ مارنے لگتا ہے اور مد مقابل پہلوان بس پٹتا ہی رہتاہے۔ بی جے پی 2014 کے عام انتخابات کو ایسا ہی کوئی تماشا بنا دینا چاہتی ہے جس میں حزب اختلاف کا ایک کمزور سا پہلوان ہوگا جس کو جس طرح بھی وہ چاہیں،پٹخنیاں دیں۔ کشتی کے سارے قوانین بھی یاتو اپنی مرضی سے بنائیں یا موجودہ قوانین کو بے اثر بنا دیں گے، یہ سب اسی صورت ممکن ہوسکے گا جب حزب اختلاف منتشر اور کمزور ہو۔ بی جے پی نے مہاراشٹر میں جس طرح ایک منتخب حکومت کو نہ صرف چاروں خانے چت کیا بلکہ ہندوتو کی علمبردار ایک پرانی پارٹی جو اپنے آپ کو مراٹھاؤں کا شیر سمجھتی تھی، اس کو تقسیم کرکے ایک ایسی کمزور بکری بنا دیا جس کے اندر اب ٹھیک سے ممیانے کی طاقت بھی نہیں بچی۔ ایسی صورت حال میں اس بات کی توقع کرنا کہ حزب اختلاف 2024 میں کوئی چیلنج بی جے پی کے سامنے کھڑا کر پائے گا، منگیری لال کا سپنا ہی لگتا ہے۔ لیکن انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہر کالے بادل میں ایک سنہری کرن ہوتی ہے(Every dark cloud has a silver linning )، گزشتہ ہفتہ بی جے پی کے دو قدآور لیڈروں کے دو بیانات سامنے آئے، جن بیانات نے ان تجزیہ نگاروں کی امیدوں کو تقویت بخشی جو اس امید پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں کہ سمندر کے اندر جو خاموشی ہے، آنے والے کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ اگر یہ بیانات عام لیڈروں کے ہوتے تو شاید ان کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن آرایس ایس کے منظورنظر نتن گڈکری جو مودی جی کے عروج کے ایام میں بی جے پی کے قومی صدر ہوا کرتے تھے، ان کا یہ کہنا کہ وہ کئی بار سیاست چھوڑ دینے کے بارے میں سوچ چکے ہیں کیونکہ سیاست اب مہاتماگاندھی کے دور کی وہ سیاست نہیں رہ گئی ہے جو عوام کی خدمت کے لیے کی جاتی تھی، آج کی سیاست صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اس بیان میں خاص بات یہی ہے کہ نتن گڈکری نے نہ صرف موجودہ سیاست پہ تنقید کی بلکہ گاندھی جی کی سیاست کی تعریف بھی کر ڈالی جو یقینا ان لوگوں کے لیے ایک چونکادینے والا بیان تھا جو گوڈسے کی تصویروں پر پھول چڑھاتے ہیں، گاندھی کا پتلا بنا کر اس پہ گولیاں چلاتے ہیں۔ گڈکری صاحب یہیں نہیں رکے، انہوں نے کہا کہ جو ایم ایل اے ہیں، وہ منتری بننا چاہتے ہیں، منتری چیف منسٹر وغیرہ وغیرہ۔ اسی سلسلہ کا دوسرا بیان اس بیان کے دوسرے ہی دن یوم کارگل کے موقع پہ سامنے آیا، وہ بیان بھی کسی معمولی لیڈر کا نہیں بلکہ ملک کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا تھا، یہ بیان بھی اسی لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ بیان مودی اور شاہ کے اس بیان کے برعکس ہے جس میں وہ ملک کی ساری بدحالی کا ذمہ دار نہرو اور اندرا کو گردانتے ہیں۔ راج ناتھ جی نے واضح طور پر کہا کہ وہ بی جے پی سے آتے ہیں لیکن وہ ملک کے کسی وزیر اعظم کی برائی نہیں کر سکتے۔ دراصل یہ دونوں بیان بی جے پی کے اندر کے اس منظرنامہ کی عکاسی کرتے ہیں جس کا اشارہ بھی گڈکری جی کے مذکورہ بیان میں موجود ہے۔ موصوف نے صاف انداز میں کہا کہ موجودہ سیاست صرف اقتدار میں بنے رہنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔کیا اس بے چینی کا مطلب یہی ہے کہ بی جے پی میں وزیراعظم بننے کا کوئی موقع کسی لیڈر کے لیے نہیں ہے، مودی جی کے بعد کس کا نمبر ہے اور اس کے بعد کون لائن میں ہے، سبھی جانتے ہیں۔ ایسی صورت میں بی جے پی کے ان لیڈروں کی بے چینی کو آسانی سے سمجھاجا سکتا ہے جو کبھی نمبر دو یا نمبر تین ہوا کرتے تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ گڈکری جیسے بڑے لیڈر کا بیان جس کے ناگپور سے گہرے رشتے ہوں بنا سنگھ کی مرضی اور رضامندی کے نہیں آسکتا اور اگر سنگھ کی رضامندی بھی ان بیانوں میں شامل ہے تو بات اور بھی سنگین ہو جاتی ہے اور اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ بھلے ہی سمندر کے کناروں پر خاموشی ہو، سمندر کے اندر کوئی طوفان آنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے میرے اس تجزیہ سے کئی لوگ متفق نہ ہوں مگر جس طرح خواب دیکھنا ہر انسان کا حق ہے، اسی طرح قیاس لگانا ہر تجزیہ نگار کا حق ہے۔ یہ قیاس آرائیاں حقیقت میں تبدیل ہوں گی یاصرف قیاس ہی رہ جائیں گی، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ یوں بھی سیاست میں کوئی پیش گوئی کرنا حماقت ہی ہوتی ہے، جہاں ہر بیان ہر لفظ کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل ہونے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگتا۔ ہو سکتا ہے یہ ایک مبالغہ ہی ثابت ہو ، مگر اتنا تو طے ہے کہ موجودہ حزب اختلاف سے کوئی امید لگانا بھی دل بہلانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جب کنس کے مظالم حد سے گزرنے لگتے ہیں تو بھگوان اسی کی بہن کے پیٹ سے کرشن کو پیدا کر دیتا ہے، جب اندرا گاندھی کے مظالم حدیں پار کرنے لگتے ہیں تو ان کی ہی پارٹی سے جگ جیون رام اور ہیم وتی نندن بہوگنا بغاوت کا الم بلند کرتے ہیں، جب راجیو گاندھی ایک ناقابل شکست قوت حاصل کر لیتے ہیں تو کانگریس کے اندر وی پی سنگھ ملک کو راستہ دکھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ضروری نہیں کہ طوفان ساحلوں سے ہمیشہ نظر آجائے بہت سے طوفان سمندر کی تہہ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔
[email protected]