پچھلے دنوں جن تین ریاستوں میں اسمبلی اور مقامی بلدیاتی اداروں کے الیکشن ہوئے ہیں۔ وہاں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سیاست میں شکست اور جیت واہموں اور بلا وجہ کی حیلہ بازیوں سے مختلف شئے ہے اور سیاسی پارٹیوں کو سنجیدہ سیاست میں انتخابی حساب وکتاب بہتر کیے بغیر جیت ملنا مشکل ہے۔ گجرات میں لگاتار پانچویں مرتبہ بی جے پی سرکار کا برسراقتدار آنا ، ہماچل پردیش میں بی جے پی سرکار کا گرنا اور دہلی میں بی جے پی کی 15سال کی بالادستی کو نیست ونابود کرکے برسراقتدار آنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقائق کو نظرانداز کرکے آپ انتخاب نہیں جیت سکتے ۔
2014کے بعد سے بی جے پی کے مخالفین اور مبصرین لگاتار کہہ رہے ہیں کہ ان کو شکست ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کرکے ہوئی۔ کچھ لوگوں کا پسندیدہ بہنا یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس پیسے کی طاقت ہے۔ کچھ لوگوں کی دلیل ہے کہ بی جے پی ہندوتو کی وجہ سے جیتتی ہے ۔ راہل گاندھی سے مخاصمت رکھنے والے بی جے پی کی جیت کو وزیراعظم نریندر مودی کے مقابلے میں راہل گاندھی کی کمزور قیادت کو ذمہ دار قرار دیتے ہیںمگر حقائق بتاتے ہیں کہ بغیر زمینی سطح کے سرگرم ہوئے کسی بھی پارٹی کا برسراقتدار آنا آسان نہیں ہے۔ گجرات میں بی جے پی گزشتہ 27سال سے برسراقتدار ہے ۔
گجرات میں بی جے پی کی بالادستی اور ووٹ شیئر غیر معمولی ہے۔ 27سال کی حکومت کے باوجود گجرات میں بی جے پی کو ووٹ شیئر ملا ہے وہ کسی بھی آزاد ہندوستان میں ووٹ شیئر ہے ۔ بی جے پی نے اس الیکشن میں 52.5فیصد ووٹ حاصل کیا ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جو مغربی بنگال میں کسی زمانے میں بائیں محاذ کی حکومت کے ساتھ تھی۔ 1980کے دہائی تک مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹیوں کا رول اور بالادستی ایسی تھی کہ اس کو ہلانا ،جھولانا ناممکن تھا مگر ممتا بنرجی کی برقی قیادت نے جیوتی باسو کی پارٹی کو نیست ونابود کردیا۔ مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
بہرحال گجرات میں پورا زور لگانے کے باجود کانگریس پارٹی صرف 17سیٹوں پر کامیاب ہوپائی۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے یہ بھی تصور کرلیں کہ گجرات میں کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی شاندار کامیابی کے پس پشت عام آدمی ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر گجرات میں عام آدمی پارٹی اور اسدالدین اویسی کی آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین نہ ہوتی تو تب بھی کانگریس پارٹی صرف 33سیٹیں ہی حاصل کرپاتی اور ایسی صورت حال میں بی جے پی موجودہ سیٹوں سے گر کر محض 140رہ جاتی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ گجرات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی میں مذکورہ بالا دو سیاسی پارٹیوں کی ووٹ کاٹنے والی پوزیشن ہے۔
بہر کیف گجرات ہی ایسی ریاست نہیں ہے جہاں پر مدتوں سے ایک پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ اس میں اڑیشہ بھی ہے اور آندھرا پردیش کو بھی اس زمرے میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گجرات میں گجراتی ’قوم پرستی ‘ یا وزیراعظم نریندر مودی کی کرشمائی شخصیت کی وجہ سے بی جے پی کو یہ کامیابی ملتی رہی ہے اور آج کے حالات میں ہم یہ بھی بلا تکلف کہہ سکتے ہیں کہ ہندوتو گجرات سماجی اور افراد کی زندگی کا ایک جز لاینفک بن کر رہ گیا ہے۔ یہ تینوں عوامل اس قدر قوی ہیں کہ 27 سال کی مسلسل حکومت کے باوجود بی جے پی کے اس قلع میں سیندھ نہیں لگ پائی ہے۔ گجرات میں بی جے پی جس انداز سے کام کررہی ہے وہ بھی منفرد اور جداگانہ ہے۔ گجرات بی جے پی میں مخالفت اور بے اطمینانی ہے مگر بی جے پی اس صورت حال سے اپنے انداز سے نمٹتی ہے۔
الیکشن سے ایک سال قبل ستمبر 2021میں بی جے پی نے وجے روپانی کو ان کی پوری کابینہ سمیت ہٹا دیاتھا۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس پر مبصرین اور محققین کی توجہ اس قدر نہیں ہوئی جس قدر ہونی چاہیے تھی۔ اس پوری مشق سے بی جے پی نے یہ پیغام واضح کردیا کہ راجستھان میں کوئی بھی وزیراعلیٰ اہم نہیں ہے اگر کوئی شخصیت ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کی ہے۔ کئی حلقوں میں الیکشن کے بعد یہ تجسس پیدا ہوا کہ اگر بی جے پی اول نمبر کی پارٹی ہے تو دوسری نمبر کی پارٹی کونسی ہوگی۔ ہم گجرات میں عام آدمی پارٹی کے انتخابی شور شرابے اور پروپیگنڈے کا جب جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اتنی دھوم دھام کے باوجود گجرات میں عام آدمی پارٹی محض پانچ سیٹوں پر کامیاب ہوپائی ہے اور اس کو صرف 13 فیصد ووٹ ملا۔ بی جے پی مسلسل کہہ رہی تھی کہ عام آدمی پارٹی کا ڈھول گجرات میں پھٹے گا۔
عام آدمی پارٹی گجرات میں کچھ خطوں تک محدود رہی۔ یہ وہ علاقے تھے جو شہری یا نیم شہری اضلاع کے تھے۔ ان میں سورت ، بھائو نگر ، جام نگر، راجکوٹ شامل ہیں۔ قبائیلی علاقوں میں جہاں بی جے پی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ زیادہ کچھ نہیںکرپائے گی اس کے باوجود عام آدمی پارٹی 51سیٹوں میں صرف 5فیصد ووٹ حاصل کرپائی اور دو سیٹوں پر اس کو کامیابی ملی۔ ان 51سیٹوں میں سے صرف 19ایسی تھیں جہاں ان کو 2فیصد سے بھی کم ووٹ ملا۔ دو روز قبل عام آدمی پارٹی نے یہ اعلان کیا کہ 2027کے اسمبلی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی۔ ابھی وہ اپنی کمر کس رہی ہے۔ لہٰذا فی الحال جو صورت حال ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوچکاہے کہ اروند کجریوال کی دال گلنا مشکل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے عام آدمی پارٹی نے گجرات میں الیکشن جیتنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کیا جو بی جے پی اختیار کرتی ہے۔ ہندوتو کے معاملے میں عام آدمی پارٹی نے ایک ترپ کا پتا پھینکا تھا اور ہندوستانی کرنسی پر ہندودیوی دیوتائوں کی تصویر لگانے کی بات کہی تھی۔
بہر حال ہماچل پردیش میں کانگریس پارٹی کی جیت سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس پارٹی میں الیکشن جتنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ریاستی الیکشنو ںمیں کئی مقامات پر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہما چل پردیش میں یہ بات ثا بت ہوگئی ہے کہ اگر پارٹی تنظیم کو مضبوط بنالیں تو وہ دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح بی جے پی کو ٹکر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہماچل پردیش میں مضبوط تنظیم کی وجہ سے کانگریس پارٹی نے اپنے تمام وسائل ان سیٹوں پر فوکس کردیے جہاں پر وہ جیتنے کی پوزیشن میں تھی۔ اس نے ووٹروں کو یہ باور کرادیا کہ یہ الیکشن نریندر مودی کی صلاحیتو ںکا پیمانہ نہیںہے بلکہ ریاستی سرکار کی کار کردگی کا جائزہ لینا ہوگا اور اسی کے مطابق ووٹ دینا ہوگا۔ کانگریس نے اس الیکشن کو ہماچل میں بی جے پی کی وزیراعلیٰ کی کارکردگی کے ریفرنڈم کے طور پر استعمال کیا۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ کچھ چاپلوس ٹائپ کے لیڈر پرینکا گاندھی کا نام اس جیت کے لیے لے رہے ہیں۔ مگر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ کانگریس پارٹی کا پورا فوکس بھارت جوڑو یاترا پر تھا ناکہ ہما چل ، گجرات یا دہلی کے الیکشن پر ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس نے ہما چل پردیش میں وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے ایک غیر معروف شخصیت کو منتخب کیا جو کہ پہلی مرتبہ ایم ایل اے بنا تھا۔ بہر کیف دہلی کے انتخابی نتائج اگر چہ بی جے پی کو دھول چٹانے والے تھے مگر الیکشن میں بی جے پی کی شکست پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ وہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں مقابلہ ہورہا ہے۔ بی جے پی کی بالادستی کو چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔ نریندر مودی کی شخصیت کو سامنے رکھ کر قومی سطح پر لوک سبھا انتخابات کو بھی جیتا جاسکتا ہے۔ جب ریاستو ں میں بہتر کارکردگی ، حکمرانی کی بات ہوگی ووٹران کے سامنے ریاستی سرکار کی کارکردگی ملحوظ خاطر رہتی ہے تو اس سے مقابلہ مقامی سطح پر ہوتا ہے نہ کہ قومی سطح پر۔
rvr