عبدالماجد نظامی
سیاست میں اخلاقیات کا کوئی رول ہو یا نہ ہو لیکن اس سچ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اعلیٰ اخلاقی قدروں سے ہی سیاست اور ارباب سیاست کا قد بڑا ہوتا ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان تو اخلاق کے ان اصولوں پر ہمیشہ کاربند رہا ہے۔ ماضی میں ہمارے سیاسی قائدین کی زبان اور ان کے وعدوں کا ایسا اثر ہوتا تھا کہ عوام کو اگر بتا دیا جاتا تھا کہ ان کے حقوق کی حفاظت کی راہ میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا تو پھر ایک لمحہ کے لیے بھی عوام کے دل و دماغ میں شک کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی تھی کہ دن کے اجالے میں ان سے جو بات کہی جا رہی ہے، رات کے اندھیرے میں اس کے خلاف ہی فیصلہ کر لیا جائے گا۔ آپ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی زندگی کے اس مرحلہ کا مطالعہ کریں جو انہوں نے جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے حقوق کی خاطر شدید اور طویل جد وجہد میں گزارا ہے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس قدر مضبوط قوت ارادی کا یہ غیرمعمولی انسان اس روئے زمین پر پیدا ہوا اور جس کی قیادت میں اس ملک کو آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ گاندھی جی پر لکھی گئی کتابوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ گاندھی جی جن مقاصد کے حصول کو اپنی کوششوں کا حصہ بناتے تھے، ان کے تئیں بڑاگہرا لگاؤ ان کے اندر پایا جاتا تھا۔ بیشمار قربانیاں انہوں نے اس راہ میں پیش کیںاور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی ذاتی زندگی یا خاندان کے مفادات کو پیش نظر نہیں رکھا۔ اس کے برعکس اپنی قوم، جس میں تمام ہندوستانی شامل تھے، کی بہتر اور باوقار زندگی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کیا اور اپنی ذات سے قبل اپنے پیروکاروں اور رفقاء و عوام کی بھلائی کو مقدم رکھا۔ اس اخلاص، اعلیٰ اخلاق اور قربانیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی کی قیادت نے مجبور و مقہور طبقوں میں ظلم و نا انصافی کے خلاف لڑنے کا حوصلہ بھر دیا۔ جنوبی افریقہ کی زمین پر گاندھی کی اخلاقی سیاست کا ہی بیج تھا جس نے نوے کی دہائی میں اپارتھائیڈ کی غیر انسانی پالیسیوں سے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں اس ملک کو آزادی دلانے کا کام کیا۔ گاندھی کی شخصیت و کردار کی بلندی، ان کے عادات و اطوار کی پاکیزگی اور سچائی و جاں سپاری کے ساتھ مقصد کے حصول کا جذبہ ہی وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے ٹالسٹائی جیسے انسانیت نواز ادیب و مفکر بھی ان کی قدر کرتے تھے۔ گاندھی جی کی ملاقات ٹالسٹائی سے کبھی نہیں ہوئی، صرف چند خطوط کا تبادلہ ان کے ساتھ ہوا، لیکن اس کے باوجود ان کی تحریروں میں موجود اخلاقی برتری کے عکس کو محسوس کیے بنا ٹالسٹائی نہیں رہ سکے۔ وہ گاندھی جی کو اپنے عہد کی گرتی اخلاقی و روحانی قدروں کے اندھیرے میں امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہ گاندھی جی ہی تھے جنہوں نے ہندوستان میں آمد کے بعد بھی اپنی سیاست کا اونچا اخلاقی معیار باقی رکھا اور ان کی شخصیت کا ایسا گہرا اثر و رسوخ تمام ہندوستانیوں اور غیر ہندوستانیوں پر پڑا کہ ان کے مداحوں اور رفقاء و پیروکاروں میں نہ مذہب کی قید باقی رہی اور نہ سرحدوں کی لکیریں ان کی راہ میں حائل ہوسکیں۔ ہندوستان کا کوئی سیاسی یا سماجی قائد اس وقت تک عوام کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ہو سکتا تھا جب تک گاندھی جی کی حمایت اسے حاصل نہ ہو۔ گاندھی جی کی یہ مقبولیت اور ان کے تئیں فدائیت کا یہ جذبہ کسی لالچ یا ذاتی اغراض کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ان کے اخلاق کی اس بلندی کی وجہ سے تھا جس کو انہوں نے اپنی سیاست و روزمرہ کی زندگی کا معمول بنا رکھا تھا۔ ہندوستان کی سیاست کا خمیر بہتر اخلاق کے پاکیزہ اصولوں کی بنیاد پر تیار ہوا تھا۔ گاندھی جی کے بعد ان کے سب سے چہیتے شاگرد پنڈت جواہر لعل نہرو اور نہرو کے عزیز دوست مولانا ابوالکلام آزاد اپنی پوری زندگی اسی پر کاربند رہے اور کبھی عوام کے ساتھ فریب کاری سے کام نہیں لیا۔ آج کی تاریخ میں ہندوتو کے عناصر گاندھی و نہرو کو اسی لیے سخت سست کہتے ہیں کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ گاندھی و نہرو کی اخلاقیات کی جڑیں اس ملک میں اتنی گہری ہیں اور عوام میں ان کی مقبولیت اس قدر زیادہ ہے کہ جب تک گاندھی کے اصولوں کی سیاست اس ملک میں باقی رہے گی تب تک نفرت، تقسیم اور خود غرضی و اخلاق سے عاری سیاست کو ترقی نہیں ملے گی۔ اسی راہ پر بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار بھی چل رہے ہیں۔ انہیں2005 میں پاور کا ایسا چسکا لگا کہ انہوں نے اخلاقیات کے تمام اصولوں کو ہی بالائے طاق رکھ دیا اور کبھی ان کے خواب و خیال میں نہیں گزرا کہ اس ملک کے لوگوں پر اس کا کتنا برا اثر پڑے گا۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ ان کی اس طرح کی سیاست سے مستقبل کے قائدین پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمارے یہاں وعدہ و زبان کی اتنی اہمیت مانی گئی ہے کہ اگر ایک بات کا وعدہ کسی سے کرلیا یا کسی مسئلہ پر کوئی ایک موقف اختیار کرلیا تو گاؤں اور شہر کے عام لوگ بھی اس سے مکرنے کی جرأت نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ہی زبان سے پھرنے کے نتیجہ میں ان کی ساکھ مٹی میں مل جائے گی۔ لیکن بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور ملک کے وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ’’چانکیہ‘‘سمجھے جانے والے امت شاہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کے بیانات کی کوئی اہمیت خود ان کی اپنی نظر میں نہیں رہ گئی ہے کیونکہ جہاں ایک طرف نتیش کمار نے کہا تھا کہ مر جانا قبول ہے لیکن این ڈی اے میں نہیں جاؤں گا، وہیں دوسری طرف امت شاہ نے کہا تھا کہ نتیش کے لیے این ڈی اے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے ہیں۔ تو آخر یہ دروازے کیسے کھل گئے؟ کیا پاور اور پوزیشن کی راہ میں تمام اخلاق و کردار کو قربان کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے آج کے سیاسی لیڈران تو بظاہر یہی پیغام دیتے نظر آ رہے ہیں۔ نتیش کمار نے یہ پیغام دیا ہے کہ اخلاق و کردار اور وعدہ و قسم کی موت کو وہ قبول کر سکتے ہیں لیکن کرسی سے بے تعلق ہونا انہیں گوارہ نہیں ہے۔ یہ اس ملک کی سیاست کے لیے سخت خطرہ کی بات ہے۔ اس سے جمہوری قدروں کی پامالی ہوتی ہے اور آئندہ نسلوں تک خود غرضی و بے ایمانی کا پیغام جا رہا ہے۔ سیاست کو اس قدر اخلاقی افلاس کا شکار بنانا سخت خطرات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔جس طرح اپوزیشن کے لیڈران کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کے بیجا استعمال سے ان اداروں کی مصداقیت پر سوالیہ نشان لگتا ہے، اسی طرح ملک کی سیاست کو جھوٹے وعدوں کے طومار سے بھر دینا اور پاور و اقتدار کی خاطر تمام اخلاقی قدروں سے اسے عاری کر دینا جمہوریت کی روح کو مسموم کردینے کے مترادف عمل ہے جس کو روکنا ضروری ہے۔ یہ ذمہ داری عوام کی ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھیں اور اپنے محدود مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کی بنیاد پر ایسی تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو اقتدار سے بے دخل کریں جو جمہوریت کو کھلونا کی طرح استعمال کرتے ہیں اور اس ملک کے ساتھ ساتھ ہمارے اور آپ کے بچوں کے مستقبل کو بھی گہرے اندھیرے غار میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر عوام نے بھی اخلاقی بحران کے اس دور میں اپنا مثبت کردار ادا نہیں کیا تو سمجھا جائے گا کہ گاندھی جی کے اصولوں والی سیاست کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب ایک نئی سیاست وجود میں آ چکی ہے جس میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے اور اس ملک کو انارکی کا شکار ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]