صرصر کو صبا،کرگس کو ھما کہیے

0

تاریخ ساز ریکارڈ ساز، امرت کال، امرت ورشا، کرشمائی کامیابی، مستقبل کی تعمیر، غیر معمولی پیش رفت وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو حکمراں جماعت کے کم و بیش ہر لیڈر کی زبان پر ہمہ وقت رہتے ہیں۔ حکمراں طبقہ خاص کر وزارت میں رہنے والے لیڈروں کا کوئی بھی عمل ’ تاریخ ساز اور کرشمائی کامیابی‘ سے کم کا نہیں ہوتا ہے۔ سنگ بنیاد کی تنصیب ہو،کسی مجسمہ کی رونمائی ہویا آمدنی و اخراجات کے گوشوارے بنانا ہو،یہ سارے اعمال غیر معمولی پیش رفت سمجھے جاتے ہیں اورانہیں مستقبل کی تعمیر سے تعبیر کیاجاتا ہے۔اس سال کے عبوری بجٹ کو بھی ’ترقی یافتہ نوجوان ہندوستان ‘کی امنگوں کا عکاس کہا گیاہے۔اس ذیل میں آج کئی نئی اصطلاحات بھی سننے میں آئی ہیں جیسے ’ امرت پیڑھی‘ اور ’کرتویہ کال‘ وغیرہ۔ان اصطلاحات کا استعمال کارپوریٹ امور اورخزانہ کی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج دوسری مودی حکومت کا آخری اور عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ’امرت پیڑھی‘ – یووا(نوجوانوں) کو بااختیار بنانے کے تئیں پرعزم ہے۔ نیز ’وکست بھارت‘ کے وژن کو پورا کرنے کیلئے ’امرت کال‘ کو ’کرتویہ کال ‘ہونا چاہیے۔
وزیرخزانہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ معیشت بہت عمدہ کارکردگی نبھا رہی ہے جبکہ ہمہ گیر ترقی کا اثر سبھی شعبوں پر یکساں پڑرہا ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوار کے لحاظ سے اعلیٰ شرح نمو پیش کرتے ہوئے حکومت ایک زیادہ جامع مجموعی گھریلو پیداوار’جی ڈی پی‘ پر یکساں طور پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے بعض مقامات پر جی ڈی پی کی مروجہ تعریف( Gross Domestic Product)یعنی مجموعی گھریلوپیدوارسے بدل کر (Governance, Development, Performance)یعنی ’ حکمرانی، ترقی اور کارکردگی‘ کردیااور دعویٰ کیا کہ حکومت نے شفاف، جوابدہ، عوام پر مبنی اور فوری اعتماد پر مبنی انتظامیہ فراہم کی ہے جس میں ’سب سے پہلے شہری‘ اور ’کم سے کم حکومت- زیادہ سے زیادہ حکمرانی‘ کا نقطہ شامل ہے۔محترمہ سیتا رمن نے کہا کہ معیشت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے کیونکہ سرمایہ کاری مضبوط ہے اور میکرو اکنامک استحکام کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں میں ہمہ جہت ترقی کا اثر واضح دکھائی دے رہا ہے۔ افراط زر معتدل ہے اور پروگرام اور بڑے بڑے پروجیکٹ مؤثر اور بروقت نافذ کیے جارہے ہیں۔ مرکزی وزیر خزانہ نے کہا کہ لوگ اپنی امنگوں کو پورا کرنے کیلئے بااختیاراوراہل ہو رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بہتر زندگی گزار رہے ہیں اور بہتر کما رہے ہیں،لوگوں کی اوسط حقیقی آمدنی میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔غریبوں کو ترقی کے عمل میں بااختیار شراکت دار بنایاگیا ہے۔ ’ ناری شکتی‘ کی بات کہتے ہوئے انہوں نے طلاق ثلاثہ کاخاتمہ اورخواتین ریزرویشن بل کا تمغہ چمکایا اوریہ کہا کہ آنے والے دنوں میں ملک کی3کروڑ خواتین کو ’ لکھ پتی دیدی‘ بنایاجائے گا۔
جابجا اعداد و شمار کی حاشیہ آرائی سے مزین وزیرخزانہ کی طولانی بجٹ تقریر میں اور بھی بہت کچھ تھا۔کچھ نہیںتھی تو حقیقت۔اس بجٹ تقریر میں زمینی حقیقت کا کوئی عکس ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا۔ وزیر خزانہ نے ’ ترقی یافتہ ہندوستان‘ کے جن چار ستونوں کا ذکر کیا ہے، ان سب کی حالت گزشتہ10برسوں میں بد سے بدتر ہوتی گئی ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں، کسانوں کو ان کی فصل کی مناسب قیمت نہیں مل رہی ہے اور وہ خودکشی کررہے ہیں۔ غریبوں اور محنت کشوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے مصائب اور آلام کے جہنم سے گزرنا پڑرہا ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے نام پر اشتہاربازی ہورہی ہے اور حکمرانوں کے چہرے چمکائے جارہے ہیں۔پسماندہ اور ترقی پذیر کی سرحد عبور کرتے ہوئے اچانک ’ ترقی یافتہ‘ کا تمغہ ملنے پر بھی حیرت ہے کہ یہ معجزہ کب اور کیسے ظہور پذیر ہواکہ جی ڈی پی سے زیادہ کا قرض اور پینے کے پانی سے محروم ہندوستان راتوں رات ترقی یافتہ ہوگیا؟
وزیرخزانہ مودی حکومت کے جن 10برسوں کی ترقی کا ذکر کررہی ہیں، ان ہی 10برسوں میں رسوئی گیس سلنڈر کی قیمت 400روپے سے1000روپے ہوگئی ہے اور پٹرول 100روپے فی لیٹر بیچاجارہاہے۔ملک میں معاشی عدم مساوات کی خلیج اتنی گہری ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔لوگوں کی آمدنی بڑھنے کا دعویٰ کرنے والی وزیرخزانہ شاید یہ بھول گئی ہیں کہ مفت اناج اسکیم کی مدت میں وزیراعظم توسیع کا سہرا سجا رہے ہیں۔اگر ملک میں عوام کی آمدنی دوگنی ہو گئی ہے تو حکومت کو مفت اناج اسکیم کو جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟
ملک کے عوام کی ترجیحات، امنگیں اور ضروریات حکومت کی نیتی آیوگ میں بیٹھے ماہرین اقتصادیات اور وزارت خزانہ میں بیٹھے ان اعلیٰ افسران کی ترجیحات سے بالکل مختلف ہیں جو سال بہ سال یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور کس کو تقسیم کیا جائے گا۔عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار کی ضرورت ہے مگر عبوری بجٹ میں جتنی اسکیموں کا وزیرخزانہ نے شمار کیا، وہ سب ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی کفیل ہیں اور بس۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بجٹ نہ تو عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے اور نہ اس میں کہیں ان کی ضروریات کی کفالت کا کوئی ذریعہ ہی نظر آرہا ہے۔نام نہاد ’ امرت کال‘ میں ’مہنگائی کا زہر‘ پینے والے عام لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرتا ہوا یہ عبوری بجٹ بھاری بھرکم الفاظ اورا صطلاحات کا مجموعہ ہے جنہیں حکومت کے اشارے پر نیتی آیوگ اور وزارت خزانہ کے بزرجمہروں نے گڑھا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS