کیا شدت پسندی کی طرف جارہا ہے یوروپ ؟

0

یوروپ میں پچھلے دس سال میں عوامی جذبات اور جمہوری اقدار کے احترام کے لبادے میںایک منفی رجحان مذہبی شدت پسندی نے سراٹھایا ہے۔ 2011کے بعد جب پوری دنیا میں جمہوریت پسندی کی ہواچل رہی تھی تو اس کی آڑ میں مغربی ایشیا، عرب ومسلم ملکوں میں ایسا طوفان آیا کہ بڑے حکمراں کے تختے پلٹ گئے اور استحکام پیدا ہوگیا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے ۔ ان حالات سے پریشان ان ملکوںکی بہت بڑی آبادی نے ان مغربی ممالک میں پناہ لینے کے لیے جان دائو پر لگا دی جہاں امن و سکون اور انسانی اقدار کا ’احترام‘ کیا جاتا تھا۔ مسلم ملکوں کے بے یارو مددگار عوام نے ، جرمنی، فرانس، ناروے، بیلجیم ، سوئیڈن، برطانیہ ، اسپین کے علاوہ امریکہ اور کناڈا کا رخ کیا۔ مغربی ممالک کے حکمراں جو ان ملکوں کی اندرونی خلفشار پر تالیاں بجا رہے تھے ۔ اس اچانک پیدا ہونے والی صورت حال سے بوکھلا گئے اور انہوںنے مہاجرین کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے متحدہ حکمت بنانے کی کوشش شروع کردی۔ خیال رہے کہ مہاجرین کے اس طوفان کا سامنا کرنے والے وہ ملک تھے، جنہوںنے انہی مہاجرین کے وطنوں پر سامراجی طاقت کے طور پر حکمرانی کی تھی اور ان ملکوں کے عظیم مجاہدین آزادی نے بڑی مشکل سے اپنے ملک آزاد کرائے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ان صفحات میںہم نے لیبیا ، تیونس، الجیریا، مصر، مالے، صومالیہ ودیگر مسلم ملکو ںکی جدوجہد کے بارے میں قارئین کی توجہ دلائی ہے۔ افریقہ کے زیادہ تر ممالک میں اٹلی ، فرانس ، آسٹریا، جرمنی، اسپین وغیرہ کی حکومتیں تھیں ۔ ان ملکو ںکی جدوجہد آزادی پر امن نہیں تھی ۔ جس طرح ہندوستان میں عدم تشدد کے ذریعہ اگر بدّوئوں کو ملک چھوڑنے نے کے لیے مجبور ہونا پڑا اور آخر کار انہوں نے تقسیم کا بیج بو کر اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرلی۔ ان ملکوں کو بڑے پیمانے پر جانی ومالی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی تھی۔ پچھلے دنوں افریقہ میں فرانسیسی سامراجی فوجوں نے جو خواتین کی بے حرمتی کی تھی اس کے کئی شواہد منظر عام پر آئے تھے۔ کئی ٹوئٹر ہینڈل اور سوشل میڈیا میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آج مغربی ممالک جس طرح آج بڑی بڑی اور اخلاقی باتیں کرتے ہیں اور جمہوری اقدار کی علمبرادری کا بھرم پھیلاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مغربی ممالک نے اپنی کالونیوں میں لوٹ کھسوٹ مچائی ہے۔ نہ تو خواتین کی حرمت کا خیال کیا او رنہ ہی انسانی حقوق کا ۔ افریقہ ممالک میں ان کی شرمناک حرکتوں سے پردہ اٹھنا شروع ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود کچھ ممالک ابھی تک ان ممالک پر اپنا سامراجی پر اکسی کے ذریعہ چلا رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ حکومتیں آج پوری دنیا کو آئین اور قوانین کی پاسداری کی سبق سکھاتی ہیں جبکہ عالم اسلام میں اسرائیل کا جو خنجر ان استبدادی طاقتوں نے گھونپا ہے وہ آج تک رس رہا ہے۔ اسرائیل تمام عالم حقوق وضوابط کی بے حرمتی کرتا ہوا بے بس اور نہتے فلسطینیوں کو سفاکی اور بے دردی کے ساتھ ماررہا ہے۔ ان کی عبادت گاہوں سے بے دخل کررہاہے اور دنیا کو یہ دکھا رہا ہے کہ وہی جمہوریت ، انصاف اور قانوبی بالادستی کا نقیب ہے۔ مہاجرین کے بحران پر یوروپی اور مغربی ممالک کا رویہ انتہائی شرمناک رہا۔ یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ نام نہاد خوشحال ، کشادہ ذہن، جمہوریت پسند ممالک نے ان مظلوم مہاجرین کو اپنی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم مہاجرین سمندروں میں غرق ہوئے۔ کچھ کی لاشیں ساحل پر آگئیں اور کچھ کو سمندری جانداروں نے اپنا لقمۂ بنا لیا۔ مغربی ممالک کا یہ دوغلارویہ دنیا کے مہذب سماج پر ایک کلنک ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج اسی بحران اور مسلم کو دشمنی ایشو بنا کر کئی ملکو ںمیں سیاسی ماحول بدل گیا ہے اور وہاں عیسائی شدت پسند برسراقتدار آگئے ، یا اس قدر طاقتور ہوگئے ہیں کہ وہاں کا ماحول پراگندہ ہوگیا ۔ فرانس جیسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس ملک کو سرمایہ کاری کے لیے چنا ہے۔ آج کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں رہن سہن بود وپاش وضع قطع ہی کو نشانہ بنا کر قانونی سازی ہورہی ہے اور جمہوریت اور شخصی آزادی کے علمبردار ممالک میں مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو روندھا جارہا ہے۔
ش ا ص

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS