کیا عبداللہ خاندان 5 اگست کو بھولنے پر آمادہ ہوچکا ہے؟آغا روح اللہ کا استعفیٰ اکیلے انکا نہیں بلکہ پارٹی کے اندر ایک سوچ کا ترجمان ہے

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    جموں کشمیر میں مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیاں بظاہر خاموش ہیں لیکن یہاں کی سب سے پُرانی اور تاریخی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ترجمانِ اعلیٰ آغا روح اللہ مہدی نے پارٹی میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر اندر ہی اندر پک رہے لاوا کے کسی بھی وقت پھوٹ پڑنے کے امکان کا اشارہ دیا ہے۔مہدی نے کچھ کہا تو نہیں ہے لیکن وہ پارٹی قیادت،باالخصوص فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ،کے مبینہ طور گذشتہ سال 5 اگست کے مرکزی سرکار کے فیصلے کو قبول کرنے پر آمادہ ہونے سے ناراض ہیں۔
    سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ،جو نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر بھی ہیں،نے ایک انگریزی اخبار کیلئے لکھے گئے مضمون میں انتخابی سیاست سے عارضی طور لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک نہ جموں کشمیر کو واپس ریاست کا درجہ دیا جائے وہ انتخابات میں شریک نہیں ہونگے۔حالانکہ وہ اب اس بیان کی صفائی دیتے پھر رہے ہیں تاہم کشمیر میں یہ چمۂ گوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ عمر عبداللہ اور انکے والد نے دلی میں ’’سودا بازی‘‘ کی ہے اور وہ دفعہ 370 کی تنسیخ پر آمادہ ہوگئے ہیں۔
    قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ سال  5  اگست کو مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں دفعہ  370اور 35A کو منسوخ کرکے نہ صرف جموں کشمیر کی ’’خصوصٰ حیثیت‘‘ ختم کردی تھی بلکہ ریاست کے درجہ کی تنزلی کرکے اسے مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔یہ نا قابلِ یقین فیصلہ لینے سے قبل مرکز نے علیٰحدگی پسند قیادت و کارکنان کے ساتھ ساتھ تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت مین اسٹریم کے درجنوں لیڈروں کو گرفتار کر لیا تھا۔
    عمر عبداللہ اور انکے والد فاروق عبداللہ نے مہینوں کی نظربندی سے رہائی ملنے پر خلافِ توقع 5 اگست کی ’’مہم جوئی‘‘ پر کوئی بیان نہیں دیا اور اب جبکہ باپ بیٹے عرصہ سے دلی میں ہیں عمر عبداللہ نے مذکورہ بالا دفعات،جن پر نیشنل کانفرنس دہائیوں تک سیاست کرتی رہی ہے،پر زیادہ توجہ دئے بغیر فقط جموں کشمیر کیلئے ریاست کے درجہ کیلئے کوشاں ہونے کا تاثر دیا۔عمر عبداللہ کا یہ بیان سامنے آنا تھا کہ ایک طرف کشمیر میں یہ چمۂ گوئیاں شروع ہوگئیں کہ عبداللہ خاندان بی جے پی کے ساتھ ’’خفیہ لین دین‘‘ کر آیا ہے تو دوسری جانب پارٹی کے نوجوان لیڈر اور ترجمانِ اعلیٰ آغا روح اللہ مہدی نے اچانک استعفیٰ دیدیا۔حالانکہ اپنے گھر میں نظربند روح اللہ نے اپنے اقدام کی کوئی وضاحت تو نہیں کی ہے لیکن یہ طے ہے کہ انہوں نے عبداللہ اینڈ کمپنی کے مذکورہ بالا دفعات کی بات کرنے کی بجائے فقط جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ لوٹائے جانے پر ’’آمادہ‘‘ ہونے سے ناراض ہوکر یہ اقدام کیا ہے۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ روح اللہ نے مارچ میں تب کھلی کر ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ جب عمر عبداللہ کے سیاسی مشیر اور دستِ راست تنویر صادق نے ایک مقامی روزنامہ کیلئے لکھے گئے مضمون میں بظاہر ’’ماضی کو بھول جانے‘‘ پر آمادہ ہونے کا تاثر دیا تھا۔ آغا روح اللہ نے لکھا تھا کہ وہ  5 اگست کی اس تذلیل کو نہیں بھولے ہیں کہ جو نئی دلی نے کشمیریوں کی کی ہے۔
    حالانکہ عمر عبداللہ نے ٹویٹر پر اپنے بیان کی صفائی دینے کی بڑی کوشش کی ہے کہ وہ  5اگست کے فیصلے کو قبول نہیں کرچکے ہیں لیکن عوام سے لیکر انکی پارٹی کے اندر تک جو شکوک پیدا ہوئے ہیں وہ باقی ہیں۔ذرائع کی مانیں تو آغا روح اللہ اگلے دنوں میں پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرسکتے ہیں اور انکے ساتھ ساتھ کئی اور لوگ بھی نیشنل کانفرنس کو خیرباد کہتے نظر آسکتے ہیں۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS