انتخابی جلسوں میں سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ذریعہ جاری کیے گئے بیانات بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، خاص کر اس وقت جب ملک کا کوئی اہم عہدہ پر بیٹھا شخص کوئی بات کہہ رہا ہو۔اس پر ملک ہی کیا دنیا بھرکی نگاہیں مرکوز ہوتی ہیں۔ وزیراعظم مودی کے ذریعہ راجستھان کے بانسواڑہ میں کانگریس اور مسلمانوں کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا اس سے ملک کے عوام مبہوت ہیں ۔چونکہ مسٹر مودی صرف ایک پارٹی کے سربراہ ہی نہیں بلکہ وہ ملک کے وزارت عظمیٰ جیسے ایک ذمہ دار عہدہ پر فائز ہیں اور اس کا پاس ولحاظ رکھنا ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ایسے میں ان کی تقریر نے ملک کے ہر اس شخص کو حیرت میں ڈال دیاہے جو تھوڑا سا بھی ملک کے جمہوری نظام اور سیکولر سسٹم میں یقین رکھتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ متنازع بیانات صرف بی جے پی کی جانب سے سامنے آتے ہیں کانگریس بھی اس میں کم پیچھے نہیں ہے اور راہل گاندھی بھی اپنے زبانی حملوں سے اکثر و پیشتر وزیر اعظم پر براہ راست حملہ آور نظر آتے ہیں ،لیکن فی الوقت بی جے پی قیادت اپنے بیان سے بیک فٹ پر کھڑی ہے اورکانگریس کو بی جے پی کی گھیرا بندی کرنے کو نیا موقع مل ہاتھ لگ گیا ہے۔ در اصل وزیر اعظم مودی کے تازہ بیان سے لوگ اس سوچ میں پڑ گئے کہ بھلا اس سے پہلے منموہن سنگھ کی حکومت جو کہ دس سال رہی، کانگریس نے کتنے مسلمانوں کو نوکریاں دے ڈالیں، دلتوں کا ریزرویشن ختم کر کے اس کا حصہ مسلمانوں کوکب سونپ دیا، خواتین کے سونے کا حساب کتاب کتنی بار لیا گیا یا پھر عام اکثریت کی جائیداد کتنے مسلمانوں کو چھین کر دے دی گئی؟ لیکن کسی کو ان سوالوں کا نہ تو جواب مل رہا ہے نہ ہی وہ اس طرح کے بھونڈے الزامات اور اشتعال انگیز بیان سے خود کو مطمئن کر پارہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں اور سیکولر تنظیمیں بھی مودی کے ریمارکس کو ملک کے لیے خطرہ بتارہی ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس میں اس متنازع بیان پر سخت ناراضگی ہے اور کانگریس قیادت نے ایکشن لینے کے لیے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔اب یہ چیف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا کیسا رول ادا کرتا ہے۔حالانکہ الیکشن کمیشن نے مودی کے خلاف کانگریس کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سطح پر چھان بین کرے گا اور اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے آج اس نے جانچ پڑتال شروع بھی کردی ہے، لیکن کمیشن کی جانچ کتنی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ ہوگی ،آنے والا وقت ہی بتائے گا۔کیا یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں؟
در اصل ،اس وقت ملک ایک بڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔غریب طبقہ معاشی بدحالی کا شکار ہے تو عام لوگ مہنگائی کی مار جھیل رہے ہیں۔نوجوان گزشتہ دس سالوں سے نوکریوں کے مواقع دیے جانے کا منتظر ہے تو کسان اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور کشکول ہاتھ میں لیے سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔گزشتہ دس سال میں لوگ معاشی بدحالی کو دور کرنے اور پندرہ پندرہ لاکھ دینے کے مودی حکومت کے وعدے کو بھولے نہیں ہیں۔لیکن اس پر عمل کرنے کے بجائے ملک کے دو بڑے طبقات کے درمیان مذہبی کھائی کو اتنا گہرا کر دیا گیا ہے کہ معمولی چنگاری کو شعلہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔نفرت کی جو خلیج پیدا کی گئی، اس کو مزید گہرا کیا جاتا رہا۔ وزیراعظم مودی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی انتخابی تقاریر میں ملک کو ترقی کی بلندی پر پہنچانے اور ایک دوسرے کو جوڑنے والا بیان دے کر بہترین قائد کا رول ادا کرتے۔ کسانوں سے ان کے مسائل پر بات کرتے، نوجوانوں سے روزگار دینے اور عوام سے مہنگائی، غریبوں سے ان کی بدحالی اور بھکمری کو دور کرنے کا وعدہ کرتے۔لیکن شاید وزیراعظم بھول گئے کہ جمہوری ریاست میں کوئی حکومت عوام کے ذریعہ منتخب ہوتی ہے۔اس میںعوام کسی پارٹی کو اس کے تعلیمی ،طبی ،فلاحی ،سوشل اور اسٹرٹیجک کاموں کی بنیاد پر حکومت سازی کا موقع دیتے ہیں اوراس حکومت پر عوامی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔یہ کیوں بھلا دیا جاتاہے کہ عوام کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کا کام ایک ایماندار سیاسی پارٹی کا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ترقیاتی کاموں کے بل بوتے پر حکومت کی تشکیل کرتی ہے۔
بہر کیف کمیونل بیانات ملک کے لیے کبھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتے۔سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو متنازع بیانات سے بچنا چاہئے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے ۔خواہ وہ کانگریس ہو یا بی جے پی۔کہا جارہا ہے کہ موجودہ عام الیکشن کے دوران اشتعال انگیز بیانات بی جے پی کی مجبوری ہیںکیونکہ وہ اپنی زمینی حالت کو بھانپ گئی ہے۔
[email protected]