تہران(ایجنسیاں) :ایران نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کے ایک درجن سے زائد تجربے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایران کے خبر رساں ادارے ارنا کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ کل 16 میزائل ملک کے جنوبی حصے میں جاری بڑی عسکری مشقوں کے دوران داغے گئے۔ان میزائلوں کو ایماد، غدر، سیجل، زلزل، دیزفل اور زلفاگر(Emad,Ghadr,Sejjil,Zalzal,Dezful, Zolfaghar)کے نام دیے گئے ہیں۔ یہ میزائل 220 میل سے 1250 میل تک کے فاصلے تک مار کر سکتے ہیں۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کے چھوٹے اور درمیانے فاصلے پر مار کرنے والے میزائل خطے میں امریکی اڈوں اور اسرائیل کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 10 میزائلوں نے ایک ہی ہدف کو بیک وقت نشانہ بنایا۔ ایران کے سرکاری ٹی وی چینل نے دکھایا کہ ان میزائلوں کو کسی صحرا سے داغا گیا۔خیال رہے کہ ایران نے ماضی میں بھی میزائل کے تجربات کیے تھے اور ان میزائلوں کی نمائش کی تھی۔ایرانی فوج کے چیف آف دی اسٹاف محمد حسین باقری نے کہا کہ یہ فوجی مشق اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف، بقول ان کے، بڑی مگر بے مقصد دھمکی کا جواب ہے۔ باقری نے کہا کہ ’تجربے میں شامل میزائل ان سیکڑوں میزائلوں میں سے ہیں جو دشمن کے ٹھکانوں کو بیک وقت نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘ایران نے اپنی فوجی مشقوں کے دوسرے روز کروز میزائل کے تجربات بھی کیے۔ماضی میں ایران کے پاسداران انقلاب نے کہہ رکھا ہے کہ اس کے کروز میزائل 620 میل دور تک فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایران کے پاس اور بھی میزائل ہیں جو 1,250 میل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ ایران وقتاً فوقتاً فوجی مشقیں کرتا رہتا ہے جن کا مقصد اپنی افواج کی تیاری کو بہتر بنانا اور نئے ہتھیاروں کے تجربات کرنا ہے۔
ایران کی اس ہفتے پیر کو شروع ہونے والی 5 روزہ سالانہ مشقیں، عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت میں وقفے کے چند دن بعد ہوئی ہیں۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران نے اپنی جوہری پیش رفت کو تیز کر دیا ہے جبکہ اس دوران عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے کی طرف واپسی کے لیے مذاکرات کے آگے بڑھنے کے لئے مزید کوششیں درکار ہے۔ برطانیہ نے جمعہ کے روز ایران کی جانب سے اس ہفتے ہونے والی جنگی مشقوں میں بیلسٹک میزائلوں کے تجربے کی مذمت کی ہے۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ کارروائیاں علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں فوری طور پر بند کردے۔‘تہران اور عالمی طاقتوں کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات پیر کو دوبارہ شروع ہوں گے۔یاد رہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں واشنگٹن کو جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر سخت پابندیوں کو پھر سے نافذ کر دیا تھا۔اس کے بعد تہران نے یورینیم کی افزودگی کو 60% کی شرح تک بڑھا دیا جو کہ ایٹم بم بنانے کے لیے درکار 90% شرح سے تکنیکی لحاظ سے معمولی فاصلے پر ہے۔