ایسالگتا ہے کہ قول و عمل کاتضادملکی سیاست کا بنیادی وظیفہ بن کر رہ گیا ہے۔حکومتیں ایک جانب کورونا وبا کی تیسری لہر کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے عوام الناس کو متنبہ کررہی ہیں کہ وہ عوامی مقامات پر بھیڑ نہ لگائیںتو دوسری جانب خود ہی بھیڑ بھاڑ والے پروگراموں اور تقریبات و رسومات کی اجازت بھی دے رہی ہیں۔اترپردیش کی حکومت نے اسی تضاد کا ثبوت دیتے ہوئے کورونا کی ممکنہ تیسری لہر سے عین قبل کانوڑ یاترا کی اجازت دے دی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے ابھی کل ہی پورے ملک کو متنبہ کیا ہے کہ تیسری لہر خود نہیںآئے گی بلکہ ہماری لاپروائی اور بے احتیاطی اس کا سبب بنے گی۔ باوجود اس کے اترپردیش کی حکومت نے کانوڑ یاترا کی اجازت دے دی۔ اسی طرح کی اجازت کورونا کی دوسری لہر کو بے قابو کرنے کا سبب بنی تھی اور اترپردیش میںچہار جانب مقتل سج گئے تھے اورکتے بلی کی طرح انسانی لاشیں ندیوں میں بہانی پڑی تھیں۔ یو پی حکومت کے اس غیر دانش مندانہ اقدام پر سپریم کورٹ نے آج بدھ کے روز از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکزی حکومت اور اترپردیش حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس روہنگٹن ایس نریمن کی سربراہی والی بنچ نے کورونا انفیکشن کے درمیان کانوڑ یاترا کی اجازت دیے جانے پر استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے سالیسیٹر جنرل تشارمہتہ سے کہاکہ ہم آج کا اخبار دیکھ کر پریشان ہوگئے ہیں کہ کووڈ19- انفیکشن کے دوران اترپردیش میں کانوڑ یاترا جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جبکہ ہمسایہ ریاست اتراکھنڈ نے اس یاترا کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش حکومت اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری رکھتے ہوئے اس معاملے میں ان کا موقف جاننا چاہا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ عوام کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔کورونا کی تیسری لہر کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی کے انتباہ کے باوجود یہ ہو رہا ہے۔ عدالت اس معاملہ کی اگلی سماعت جمعہ کے روز کرنے والی ہے۔
عدالت کا استعجاب اور پریشانی بے سبب نہیں ہے۔ ملک میں ابھی کورونا کی دوسری لہر نے دم نہیں توڑا ہے کہ تیسری لہر کے سنگین خدشات ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔حکومت عوام کو باربار احتیاط برتنے کی ہدایت دے رہی ہے۔ وبا کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کے سربراہ بھی بار بار متنبہ کررہے ہیں کہ کووڈ-19کی دوسری لہر ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اوراگر اس وقت احتیاط نہیں برتی گئی اور لاپروائی ہوئی تو حالات بگڑ جائیں گے۔ نیتی آیوگ نے بھی بتایا ہے کہ دنیا بھر میں تیسری لہر بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے، اب تک ایک دن میں اوسطاً3لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو اب بڑھ کر9لاکھ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔پرانی لہر کے مقابلے میں معاملات کی تعداد میں 40فیصد کا اضافہ ہوا۔ ہندوستان کو تیسری لہر کی زد میںآنے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے، عوام حکومت کے کورونا پروٹوکول کی پابندی کریں۔ نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال نے بھی وزیراعظم کے اس بیان کی توثیق کی ہے جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہاتھا کہ تیسری لہر خود نہیں آئے گی بلکہ ہم اسے اپنی لاپروائی اور بے احتیاطی کی وجہ سے خود ہی دعوت دیں گے۔
ابھی دوسری لہر بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے، بہت سی ریاستوں میں آج بھی انفیکشن کے معاملات ملکی اوسط سے کہیں زیادہ ہیں۔جن ریاستوں میں بڑے پیمانے پر جانچ ہورہی ہے، وہاں نئے معاملے سامنے آرہے ہیں اور متاثرین کا علاج بھی کیاجارہاہے۔ ملک بھر میں یومیہ سامنے آرہے نئے کیسز میں کیرالہ سے30.3فیصد، مہاراشٹر سے 20.8فیصد مریض ہیں۔ان دو ریاستوں کے مقابلے میں اترپردیش اور دیگر مشرقی ریاستو ں میںٹیسٹنگ کی رفتار بھی کم ہے جس کی وجہ سے یہاں نئے کیسز کا پتہ چل پانا مشکل ہو رہاہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان ریاستوں میں دوسری لہر ختم ہوگئی ہے اور راوی چین ہی چین لکھ رہاہو۔ حالات ان ریاستوں میں کہیں زیادہ خراب ہیں۔ ایسے میں حالات کاتقاضاہے کہ احتیاطی تدابیر سے منھ نہ موڑاجائے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ عوام تو احتیاط برتنے کو تیار ہیں لیکن حکومت عقیدہ کے نام پر خود ہی ایساماحول بنارہی ہے کہ بھیڑ بھاڑ اکٹھی ہواور انفیکشن تیزی سے بے قابو ہوجائے۔
وزیراعظم، وزارت صحت اور نیتی آیوگ کے واضح پیغامات کے باوجود اگر کسی ریاست میں حکومتی سطح پر تیسری لہر کو دعوت دینے والے اقدامات کیے جائیں تو یہ انتہائی تشویش کا سبب ہے۔ عدالت کو اسی وجہ سے اس معاملے میں از خود نوٹس لینا پڑا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ مرکز اور اترپردیش کی حکومت عدالت میں کیا موقف اختیار کرتی ہے اور عدالت کو کیسے مطمئن کرتی ہے۔
[email protected]
تیسری لہر کو دعوت!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS