صبیح احمد
جمہوریتوں کی صحت مندانہ کارکردگی کا انحصار ان معلومات کے معیار پر ہوتا ہے جو ان کے اندر بحث و مباحثہ کو ترتیب دیتی ہے۔ لیکن ڈجیٹلائزیشن، سوشل میڈیا کا عروج اور مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی جدید شکلیں عوامی گفتگو کو زہر آلود کرنے کے نئے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ، نجی فرموں کی بڑھتی ہوئی تعداد سیاسی اور کارپوریٹ کلائنٹس کی جانب سے غلط معلومات پھیلانے سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی کے شعبوں میں تیزی سے پیش رفت بہت زیادہ سماجی فوائد فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہے، لیکن وہ اصلی و جعلی اور سچ و جھوٹ کے درمیان لائنوں کو دھندلا کرنے کیلئے نئی گنجائش بھی پیش کرتے ہیں۔ کووڈ وبائی مرض کے دوران آن لائن پروپیگنڈہ کرنے والے سازشی نظریات اور جھوٹے دعوؤں کے بعد کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کہ2020 کے امریکی صدارتی انتخابات چوری ہو گئے تھے، نے دکھایا ہے کہ یہ کہاں لے جا سکتا ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا خوراک کی طرح ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ جیسے انسانی جسم کھانا کھائے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی طرح آج کے دور میں انسانی ذہن سوشل میڈیا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دی گلوبل اسٹیٹسٹکس کے مطابق اوسطاً ہندوستانی روزانہ7گھنٹے سے زیادہ موبائل استعمال کرتے ہیں جس میں ڈھائی گھنٹے سے زیادہ صرف سوشل میڈیا پر ہی گزارتے ہیں۔ گھنٹوں سوشل میڈیا کا استعمال انسان کے اندر غیر سماجی رجحان پیدا کرتا ہے، جس کی وجہ سے اسے نہ صرف ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس جیسی بیماریاں مفت مل رہی ہیں بلکہ جعلی خبروں کی ملاوٹ کی وجہ سے انسان سچائی سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ’نشے‘ میں جعلی خبروں کی ’ملاوٹ‘ کی بات کی جائے تو ایک اندازہ کے مطابق فیس بک پر ہر ماہ 4 سے 5 کروڑ جعلی خبریں پوسٹ ہوتی ہیں۔ دوسری جانب ٹوئٹر پر ہر ماہ 15 سے 20 لاکھ اکاؤنٹس صرف جعلی خبریں پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں جعلی خبروں کی ملاوٹ سے ہم ہندوستانی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔سروے کے مطابق ہندوستان میں سوشل میڈیا کے کل صارفین میں سے 64 فیصد روزانہ سوشل میڈیا پر کم از کم ایک جعلی خبر پڑھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے کل صارفین میں سے 57 فیصد سوشل میڈیا پر روزانہ کم از کم ایک جعلی خبر پڑھتے ہیں۔ یعنی ہندوستان میں جعلی خبروں کی روزانہ پڑھنے کی شرح دنیا کی اوسط سے زیادہ ہے۔
زندگی کے تمام شعبوں میں سوشل میڈیا کا عمل دخل حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا کسی کو بھی اقتدار پر بٹھا سکتا ہے اور بے دخل بھی کر سکتا ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق امریکہ میں 68 فیصد ووٹروں نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر ووٹ دیا۔ دوسری جانب ’آئی کیوبس‘ (icubes) کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق ہندوستان کے 61 فیصد ووٹرس سوشل میڈیا پر پوسٹس پڑھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ یعنی جعلی خبروں کی ملاوٹ کسی بھی ملک کی حکومت بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ گھنٹوں سوشل میڈیا کا استعمال ہمارے جسموں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق صرف 20 منٹ کا ٹوئٹر استعمال کرنے سے انسان کا موڈ بدل سکتا ہے۔ نیویارک کی بفیلو یونیورسٹی کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روزانہ 6 گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارنا ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے انتہائی مضر اثرات میں جہاں لوگوں کا غیر سماجی ہونا شامل ہے، وہیں اس کا دیگر منفی پہلو ’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں کی تیزی سے تشہیر بھی ہے جس کا سماج پر کافی خطرناک اثر پڑتا ہے۔ ’جعلی خبروں‘ سے مراد ایسی خبروں اور کہانیوں یا حقائق سے ہے، جن کا استعمال جان بوجھ کر پڑھنے والوں کو غلط معلومات دینے یا دھوکہ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ’جعلی خبریں‘ ایک بڑے برگد کے درخت کی طرح ہیں جس کی بہت سی شاخیں اور ذیلی شاخیں ہیں۔ اس کے تحت کسی کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے ساتھ ساتھ کسی شخص یا تنظیم کی شبیہ کو نقصان پہنچانے یا جھوٹی خبروں کے ذریعہ لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش جیسی حرکتیں آتی ہیں۔ یہ کہانیاں عام طور پر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے نشر کی جاتی ہیں۔ ’جعلی خبروں‘ کو جدید دور کے سوشل میڈیا سے متعلق کوئی نیا رجحان نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ قدیم یونان میں بھی بااثر افراد اپنے مفاد میں رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے غلط معلومات اور پروپیگنڈہ کا استعمال کرتے تھے۔ ہندوستان میں مسلسل پھیلتی جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈہ ملک کے لیے ایک سنگین سماجی چیلنج بنتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے سڑکوں پر ہنگامے اور ہجومی تشدد کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’جعلی خبروں’ کی ترسیل کا بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہندوستان میں دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں ’جعلی خبروں‘ یا پروپیگنڈہ کی وجہ سے ایک معصوم شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ وہاٹس ایپ کو ہندوستان میں ’جعلی خبروں‘ کے لیے سب سے کمزور وسیلہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کے صارفین اکثر خبروں کو اس کی سچائی جانے بغیر بہت سے لوگوں کو فارورڈ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے غلط معلومات ایک ساتھ بہت سے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ ہندوستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں اب روایتی میڈیا اور ٹیلی ویژن نیوز چینلوں کو ’خبروں اور حالات حاضرہ‘ کے قابل اعتماد ذریعہ کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، بلکہ میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن نیوز چینل سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک آلہ کار بن چکے ہیں۔ اس طرح میڈیا اپنی معتبریت پوری طرح کھو چکا ہے اور ’فیک نیوز‘ کا ایک بڑا وسیلہ بن گیا ہے۔
انٹرنیٹ، فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سوشل میڈیا سائٹس کا نوخیز ذہنوں پر بھی بہت زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔ یہ مثبت بھی ہوسکتا ہے اور منفی بھی، یہ بچوں پر والدین کے ساتھ ساتھ سماج کی نگرانی پر منحصر کرتا ہے۔ زیادہ تر اسکول جانے والے طلبا کا فیس بک اور ٹوئٹر پر پروفائل ضرور ہوتا ہے۔ ایسے میں طلبا کو فرضی خبروں سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہے۔ طلبا کو جب بھی کسی کام میں دشواری محسوس ہوتی ہے تو وہ انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے میں اکثر طلبا انٹرنیٹ پر موجود تمام معلومات کو سچ ماننا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگ طلبا کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ یہ چیک کرنے کے لیے کہ کوئی پوسٹ یا خبر جعلی ہے یا نہیں، یہ ترکیب اپنائی جاسکتی ہے کہ جب خبر ایک نیوز ویب سائٹ پر شائع ہوتی ہے تو دوسری اہم نیوز ویب سائٹس پر وہی خبریں چیک کرلی جائیں۔ فیس بک پر پوسٹ کسی بھی معلومات کوگوگل کے ذریعہ دوسری بڑی نیوز ویب سائٹس پر چیک کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ کسی بھی خبر یا پوسٹ کو تصدیق کیے بغیر شیئر نہ کیا جائے۔ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے شیشوں سے دنیا کو دیکھنے کے بجائے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے۔ سوشل میڈیا پر چیٹنگ کرنے کے بجائے کسی دوست کے گھر جایا جائے۔ بہرحال جیسے جیسے ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے، ریگولیشن اور عوامی نگرانی کے نظام کو بھی اسی رفتار سے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ٹیک پلیٹ فارمس اپنے آن لائن ماحول کے لیے زیادہ جوابدہ بن جائیں، کیونکہ پولرائزیشن کے دور میں غلط معلومات جمہوری بحث اور اتفاق رائے کے لیے لازمی نیک نیتی کے مفروضے کو کمزور کرتی ہیں۔
[email protected]