عالمی یوم خواتین اور فلسطینی خواتین کے مسائل

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

8 ابھی مارچ کو چند روز ہی گزرے ہیں جس دن کو پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کی بازیابی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خواتین نے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی غرض سے جس تحریک کا آغاز 1909 میں امریکہ کے شہر نیو یارک میں کیا تھا اور جس کا قافلہ کوپن ہیگن، برلن اور ماسکو سے ہوتے ہوئے دنیا کے الگ الگ شہروں میں پہنچا اور وہاں سے گزر کر آج چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں تک پہنچ چکا ہے اسی تحریک کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین کی خواتین نے بھی عالمی برادری کے سامنے درد و کرب سے بھری اپنی داستان سنانے کے لیے 8 مارچ 2022 کو ایک ریلی نکالی جس میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے ظلم و تشدد اور اسرائیلی پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے اسرائیلی صہیونیوں کو مل رہی مدد کا چہرہ واشگاف کیا، ساتھ ہی انہوں نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا کہ جہاں اس دن کو دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی بازیابی کے طور پر منایا جاتا ہے وہیں فلسطین کی خواتین پر اسرائیل کے ذریعہ بے پناہ ظلم روا رکھا جاتا ہے اور انہیں قید و بند کی صعوبتوں اور ذہنی و جسمانی اذیتوں کے علاوہ ذہنی عذاب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں خاص طور سے فلسطینی خواتین جن اذیت ناک مراحل سے گزرتی ہیں، ان کا ذکر کرتے ہوئے فلسطینی قیدی فورم نے 7 مارچ 2022 کو ایک بیان جاری کیا کہ اسرائیلی جیلوں میں 32 فلسطینی خواتین بند ہیں جنہیں سخت ذہنی و جسمانی عذاب سے گزارا جاتا ہے۔ فورم کے مطابق 32 مقید فلسطینی خواتین میں سے 11 ایسی ہیں جنہیں ان کے بچوں سے دور کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ ان کے بچے اپنی ماؤں کی راہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہر دن کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں کہ شاید آج کا دن ان کے لیے آزادی کی خبر لے کر آئے اور انہیں اپنی ماں کی ممتا کے آنچل میں مچلنے کا موقع مل سکے۔ فلسطینی زمینوں پر غاصبانہ طور پر قابض اسرائیل کی جیلوں میں صرف بڑی عمر خواتین ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں پندرہ سالہ حماد جیسی بچی بھی شامل ہیں جن کو قدس شہر سے گرفتار کیا گیا تھا اور اب جنہیں اسکول کے خوشگوار ماحول کے بجائے اسرائیلی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے۔ ان میں بیت لحم سے تعلق رکھنے والی بہادر خاتون میسون موسی ہیں جو سب سے طویل عرصے سے اسرائیلی جیل میں پڑی ہوئی ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہی ہیں۔ اسرائیلی فورس نے جون 2015 میں ان کو گرفتار کیا تھا اور بعد میں اسرائیلی عدالت نے پندرہ سال کی سزا سنا دی تھی۔
فلسطینی قیدی فورم کی رپورٹ کے مطابق ان فلسطینی خواتین کو طبی امداد تک سے محروم رکھا جاتا ہے اور ان کے اعزہ و اقارب کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ جن فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ان کی ماؤں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے، انہیں ایک دوسرا نفسیاتی عذاب یہ جھیلنا پڑتا ہے کہ ان کی ماؤں کو اس کی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کو آغوش مادر میں بھر سکیں۔ اس کے علاوہ طرح طرح کے جن جسمانی اور ذہنی عذاب سے انہیں گزرنا پڑتا ہے، وہ اس پر مستزاد ہے۔ کئی فلسطینی خواتین ایسی بھی ہیں جنہیں اسرائیلی پولیس نے گرفتار تو کیا لیکن ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی۔ ایسی خواتین کے حالات زیادہ ناگفتہ بہ ہیں، کیونکہ انہیں کب تک اسرائیلی سلاخوں کے پیچھے رہنا ہوگا، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ رپورٹ نے اس پہلو کو بھی واضح کیا ہے کہ قید و بند کی شکار فلسطینی خواتین میں چھہ زخمی حالت میں ہیں اور انہیں طبی امداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اسی فورم کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل 2015 سے اب تک گیارہ سو فلسطینی خواتین کو گرفتار کر چکا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے حالات پر نظر رکھنے والی تنظیموں کے مطابق 4500 فلسطینی قیدی اسرائیل کی الگ الگ جیلوں میں پرمشقت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر غزہ کی خواتین نے ریلی نکال کر دنیا کی توجہ اسی کربناک صورتحال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی تاکہ اسرائیلی جیلوں میں بند مرد و خواتین کے حقوق کو پامال ہونے سے بچایا جا ئے اور اسرائیل کی آبادکاری سے متعلق پالیسیوں پر قدغن لگانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اس ریلی میں صرف فلسطین کی خواتین کی ہی تحریک نے حصہ نہیں لیا بلکہ ان کے کاز کی حمایت میں دیگر فلسطینی تنظیمیں بھی ساتھ تھیں جن میں خاص کر فتح کے نائب صدر محمود عالول بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ فتح کی مرکزی کمیٹی کی ممبر دلال سلامہ نے فلسطین کے تئیں اسرائیل کی مسلسل جاری رہنے والی غیر انسانی پالیسیوں کی مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جاری جنگ میں خواتین بھی مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اسرائیل کی آبادکاری سے متعلق پالیسی کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور صہیونی ظلم کے خلاف ہماری یہ جنگ تب تک جاری رہے گی جب تک فلسطین کو آزادی نصیب نہ ہو جائے۔ انہوں نے عالمی برادری کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اور ان سے اپیل کی وہ اس ظلم کے خلاف اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھائیں اور فلسطینی زمینوں پر صہیونی عناصر کی روز بروز بڑھتی بربریت کو روکنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
حالیہ دنوں میں غزہ کے ’’بْرقہ ’’ اور ’’سیلۃ الظہر‘‘ علاقوں میں صہیونی آبادکاروں کا تشدد بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ وہ لگاتار اپنی ریلیاں نکالتے ہیں، فلسطینیوں کو دھمکاتے ہیں۔ انہیں ان کی زمینوں اور بستیوں سے نکال کر خود وہاں بسنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کے مسائل کے بارے میں کوآرڈی نیشن کی ذمہ داری نبھانے والے ٹور وینس لینڈ نے بھی 23 فروری کو سیکورٹی کونسل کے سیشن میں فلسطینیوں پر صہیونی آبادکاروں کے تشدد پر اپنی گہری فکرمندی کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل یوروپی یونین کے ممالک نے فلسطینیوں پر جاری آبادکاروں کے ظلم و تشدد کے خلاف اپنا احتجاج درج کروایا تھا۔ خود یونائٹیڈ نیشنز فار دی کوآرڈی نیشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق 2022 کے آغاز سے لے کر محض 7 فروری تک صہیونی آبادکاروں نے 53 بار فلسطینیوں پر حملے کیے ہیں جن میں سے 46 دفعہ فلسطینی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ سات موقعوں پر فلسطینی زخمی ہوئے۔ اسی طرح اگر اسرائیل کی’’پیس ناو‘‘ نامی تحریک کے ذریعہ دیے گئے اعداد و شمار کو پیش کیا جائے تو فلسطین کی سرزمین پر 145 بڑی اور ناجائز یہودی بستیاں آباد ہیں جن میں 6 لاکھ 66ہزار صہیونی آبادکار رہتے ہیں۔ بیشتر ایسی یہودی بستیاں ہیں جن کو خود اسرائیل نے لائسنس مہیا نہیں کیا ہے لیکن جب فلسطینیوں پر حملے کا وقت آتا ہے تو اسرائیلی پولیس، فوج اور صہیونی عناصر مل کر ان کے جان و مال اور عزت و آبرو پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور پوری مغربی دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ یوکرین پر روسی جارحیت نے مغربی ممالک کے دوہرے معیار کو دنیا کے سامنے بری طرح بے نقاب کر دیا ہے اور انسانی حقوق کی حفاظت اور جمہوری قدروں کی بحالی سے متعلق ان کے دعوؤں کی پول کھل گئی ہے۔ کیا اب بھی وہ اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کی جانب قدم اٹھاکر فلسطینیوں کے حقوق کو ایمانداری سے بحال کرنے کی کوشش کریں گے؟ کیا مغرب کی نسواں تحریکیں خاص طور سے فلسطینی خواتین کی آزادی اور ان کے ساتھ انصاف کی خاطر اپنی آواز بلند کریں گی؟ دنیا کی انسانی برادری ان کے تمام قول و فعل پر نظر رکھے ہوئی ہے۔ یہ وقت امتحان کا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS